اب تک ایسے اعداد و شمار مرتب نہیں ہوئے جِن سے یہ پتا چل سکے کہ کتنے افراد نے اسلام قبول کیا، کیونکہ ہیٹی کی حکومت ابھی تک اِس مذہب کو تسلیم نہیں کرتی
ہیٹی میں عیسائیت کے ماننے والے سب سے زیادہ ہیں، لیکن 2010ء میں آنے والے زلزلے کے بعد اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد میں خاصا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جِس میں تین لاکھ سے زائد افراد ہلاک جب کہ 10 لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے تھے۔
ہیٹی کے دارالحکومت ’پورٹ او پرنس‘ میں اِس وقت کم از کم پانچ مسجدیں آباد ہیں۔
اسکول ٹیچر ڈیرلین ڈروزیئر دو بچوں کی ماں ہیں۔ اُنھوں نے اپنے ہمسائے میں ایک مسجد تعمیر کرنے میں مدد کی۔ زلزلے میں اپنا گھر تباہ ہونے اور ایک ماہ بعد اپنے شوہر کی فوتگی کے بعد اُنھوں نے اسلام قبول کیا۔
وہ کہتی ہیں کہ اُن کے لیے جیت کی پرکھ یہ ہے کہ آپ زندہ ہیں، جب کہ آپ کہہ نہیں سکتے تھے کہ آپ بچ جائیں گے۔
زلزلے کے بعد امداد پہنچانے کی غرض سے متعدد مذاہب کے لوگ ہیٹی پہنچے۔
تاہم، اسلام اختیار کرنے والی کِشنر بِلی، جو رات کو نشر ہونے والے ٹیلی ویژن پروگرام کی ہوسٹ ہیں، کہتی ہیں کہ مسلمانوں کی طرف سے کیے جانے والے امدادی کام نے لوگوں کو متاثر کیا۔
وہ کہتی ہیں کہ زلزلے کے بعد ہر جگہ سے مسلمان یہاں پہنچے، جن میں برطانیہ، امریکہ، فرانس، بیلجیئم جیسے ممالک شامل ہیں، تاکہ آفت زدہ لوگوں کی مدد کی جاسکے۔ ’ہاں، زلزلے کے بعد ہم نے ہیٹی کے بہت سے افراد کو اسلام قبول کرتے دیکھا‘۔
بِلی نے کہا کہ زلزلے کے بعد مسلمانوں نے ہیٹی کے لوگوں کی زندگیوں میں نئی سمت کے تعین میں مدد دی۔
اب تک ایسےاعداد و شمار مرتب نہیں ہوئے جِن سے یہ پتا چل سکے کہ کتنے افراد نے اسلام قبول کیا، کیونکہ ہیٹی کی حکومت ابھی تک اِس مذہب کو تسلیم نہیں کرتی۔
ہیٹی کے دارالحکومت ’پورٹ او پرنس‘ میں اِس وقت کم از کم پانچ مسجدیں آباد ہیں۔
اسکول ٹیچر ڈیرلین ڈروزیئر دو بچوں کی ماں ہیں۔ اُنھوں نے اپنے ہمسائے میں ایک مسجد تعمیر کرنے میں مدد کی۔ زلزلے میں اپنا گھر تباہ ہونے اور ایک ماہ بعد اپنے شوہر کی فوتگی کے بعد اُنھوں نے اسلام قبول کیا۔
وہ کہتی ہیں کہ اُن کے لیے جیت کی پرکھ یہ ہے کہ آپ زندہ ہیں، جب کہ آپ کہہ نہیں سکتے تھے کہ آپ بچ جائیں گے۔
زلزلے کے بعد امداد پہنچانے کی غرض سے متعدد مذاہب کے لوگ ہیٹی پہنچے۔
تاہم، اسلام اختیار کرنے والی کِشنر بِلی، جو رات کو نشر ہونے والے ٹیلی ویژن پروگرام کی ہوسٹ ہیں، کہتی ہیں کہ مسلمانوں کی طرف سے کیے جانے والے امدادی کام نے لوگوں کو متاثر کیا۔
وہ کہتی ہیں کہ زلزلے کے بعد ہر جگہ سے مسلمان یہاں پہنچے، جن میں برطانیہ، امریکہ، فرانس، بیلجیئم جیسے ممالک شامل ہیں، تاکہ آفت زدہ لوگوں کی مدد کی جاسکے۔ ’ہاں، زلزلے کے بعد ہم نے ہیٹی کے بہت سے افراد کو اسلام قبول کرتے دیکھا‘۔
بِلی نے کہا کہ زلزلے کے بعد مسلمانوں نے ہیٹی کے لوگوں کی زندگیوں میں نئی سمت کے تعین میں مدد دی۔
اب تک ایسےاعداد و شمار مرتب نہیں ہوئے جِن سے یہ پتا چل سکے کہ کتنے افراد نے اسلام قبول کیا، کیونکہ ہیٹی کی حکومت ابھی تک اِس مذہب کو تسلیم نہیں کرتی۔