واشنگٹن پوسٹ کہتا ہے کہ طالبان کی حکمت عملی میں اس تبدیلی کے نتیجے میں وہائٹ ہاؤس کی فوجیں کم کرنے کی پالیسی میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ اور اس ماہ کے آخر تک فوجوں کی واپسی کے بعد افغانستان میں امریکی فوجوں کی تعداد 68 ہزار رہ جائے گی۔
واشنگٹن پوسٹ
’واشنگٹن پوسٹ‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں طالبان نے ایک نئی حکمت عملی اپنائی ہے جس کا زور علاقہ فتح کرنے پر کم اور اہم اہداف کو نشانہ بنانے پر زیادہ ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکی اور نیٹو فوجوں نے ان باغیوں کوجنوبی افغانستان کے وسیع علاقوں سے مار بھگایا ہےجس کے بعد طالبان کمانڈروں نے محاذ جنگ کی نئی پالیسی اختیار کی ہے۔ اس میں کھویا ہوا علاقہ واپس لینےکے مقابلے میں زیادہ توجہ اس گیارہ سالہ جنگ کے اگلے مرحلے میں کامیابی حاصل کرنے پر مرکوز ہے ۔
امریکی فوجی اور انٹلی جنس عہدہ داروں کا کہناہے کہ طالبان کما نڈروں نےاپنے زیادہ تر خود کُش بمباروں کو ملک بھر میں بڑے بڑے اہداف کو دیدہ دلیری سے نشانہ بنانے کے لئے بھیجنا شروع کیا ہے اور ان اہداف میں امریکی سفارت خانہ اور نیٹو کے قلعہ بند اڈّے شامل ہیں۔باغی لیڈروں نے افغانستان کے ایسےکلیدی سرکاری اور سیکیور ٹی کے عہدہ داروں کو قتل کرنے کی ایک زبردست مہم شروع کی ہے جو غیر ملکی فوجوں کے ملک چھوڑ دینے کے بعد ملک میں کلیدی قائدانہ کردار ادا کرنے والے ہیں۔ اس کے علاوہ طالبان نے دھوکے سے افغان فوج میں بھرتی ہو نے کے بعد متعددمغربی فوجیوں کو ہلاک کیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ طالبان نے پچھلے ایک سال کے دوران اعلیٰ اہداف پر جو کامیاب حملے کئے ہیں اور اعلیٰ عہدہ داروں کا قتل کیا ہے۔ اس کے پیش نظر ان شبہات نے جنم لیا ہے کہ سنہ 2014 میں نیٹو افواج کے چلے جانے کے بعدسرکاری افغان فوج اور سیکیورٹی فورسزاس قابل ہونگی کہ وہ باغیوں پر قابو پاسکیں۔
آڈیو رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجیئے:
افغان سیکیورٹی فورسز میں طالبان جس طرح دہوکے سے گُھس جانے میں کامیاب ہوئے ہیں، اس کے پیش نظر مشترکہ گشتوں اور دوسرے ایسے مشنوں پر غیر معمولی پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں، جو کہ بقول اخبار کے، افغان فوجیوں کے ساتھ قریبی اشتراک قائم کرنے کی امریکی اور نیٹو حکمت عملی کے منافی ہے۔
اخبار نے اعلیٰ عہدہ داروں اور تجزیہ کاروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ حال ہی میں کابل کے اندر بڑےبڑے اہداف پر جو حملےہوئےہیں وُہ پاکستان میں مقیم حقانی نیٹ ورک جنگجؤوں کی کارستانی ہے۔ اور جو طالبان کے اُس دھڑے کے ساتھ مل کر کاروائی کرتے ہیں، جس کا لیڈر ملّا عمر ہے۔
’واشنگٹن پوسٹ‘ کہتا ہے کہ طالبان کی حکمت عملی میں اس تبدیلی کے نتیجے میں وہائٹ ہاؤس کی فوجیں کم کرنے کی پالیسی میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ اور اس ماہ کے آخر تک فوجوں کی واپسی کے بعد افغانستان میں امریکی فوجوں کی تعداد 68 ہزار رہ جائے گی۔ اس سال امریکی صدارتی انتخابات میں جو امید وار کامیاب ہوگا اس کا یہ فیصلہ کہ وہاں کتنی فوجیں رکھنی ہیں ۔ افغانستان میں تشدّدکی نوعیت سے اثر انداز ہوگا۔
نیویارک ٹائمز
امریکی انتخابی مہم کے دوران صدراتی امّید واروں کی طرف سے رازداری میں لا پرواہی سےدئیے گئے بیانات.اگر کسی طور منظر عام پر لائےجائیں تو ان سے متعلقہ امیدوار کی سُبکی کے علاوہ اس کے منتخب ہونے کے امکانات اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ ری پبلکن پارٹی کے امید وار مٹ رامنی آج کل ایسے ہی مخمسے میں اُلجھے ہوئے ہیں۔
اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ ایک اداریے میں کہتا ہے کہ ایک رسالے نے رامنی کا ایک ایسا ہی بیان طشت از بام کر دیا ہے۔ جس میں چندہ دینے والے رؤسا کی ایک نجی محفل میں انہوں نے رازداری میں کہا تھا کہ مسٹر اوباما کے حامی ووٹر ٹیکس نہیں دیتے۔
انہوں نے انہیں ایسا مفت خور قرار دیا جو حکومت سے اپنی کفالت کی توقّع کرتے ہیں۔
اخبار کہتا ہے مسٹر رامنی کی دانست میں یہ مفت خورےوُہ ہیں جن کی آمدنی دس ہزار سالانہ بھی نہیں، اورمعمولی ملازمتیں کرتے ہیں۔اسی طبقے میں زیادہ عمر والے امریکی ہیں جن کی سوشل سیکیوریٹی کی آمدنی اتنی کم ہے کہ اس پر ٹیکس نہیں لگ سکتا۔ اسی طبقے میں وہ لوگ بھی آتے ہیں ، جو اگر 50 ہزار بھی کماتے ہوں، پھر بھی اُنہیں بچوں اور مکان کی قسطوں سے ملنے والی مراعات کی وجہ سے ٹیکس نہیں دینا ہوتا۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹررامنی کا رُوئے سُخن اُن امریکیوں کی طرف بالکل نہیں تھا جو اتنی دولت کماتے ہیں، جو کوئی ٹیکس ادا کرنے سے با لکل بچ جاتے ہیں اور جو اُنہیں کی طرح سمندر پار ملکوں میں اپنی آمدنی چُھپا لیتے ہیں یا پھر ٹیکسوں کے نظام میں موجودسقم کا فائدہ اُٹھاتےہیں، جن کی مدد سے وُہ یہ بہانہ کر سکتے ہیں کہ آمدنی لگائے ہوئے سرمائے سے آ رہی ہے، جس پر ٹیکسوں کی شرح کم ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹر رامنی نے ان کاہل امریکیوں کے فرضی ٹولے کے بارے میں جو کُچھ کہا ہے ، غلط ہے ، کیونکہ امریکیوں کی بھاری اکثریت وفاقی اور ریاستی ٹیکس دیتی ہے ۔ اور حکو مت کی آمدنی کا مسلہ غریبوں کی وجہ سے پیدا نہیں ہوا ۔ بلکہ امیر ترین لوگون کی وجہ سے ہے۔ جو بُش دور کی ٹیکسوں کی چھوٹ ملنے کی وجہ سے ہوا ہے۔ اور یہ چھوٹ بند کرنے کا وقت آگیا ہے۔ لیکن ایسا اُس وقت تک نہیں ہو سکتا، جب تک مسٹر رامنی جیسے لوگ غریب اور متوسّط طبقے کو دُشمن بناکر دولتمندوں کی حفاظت کرتے رہیں گے ۔
واشنگٹن پوسٹ
ادھر واشنگٹن پوسٹ کے ایک تجزئے کے مطابق ورجنیا کی ریاست میں، جہا ں دونوں صدارتی امیدواروں کے درمیان مقابلہ سخت ہے، مسٹر اوباما کو رائےعامہ کے جائزوں میں واضح سبقت حاصل ہو رہی ہے۔
اخبار کے استصواب کے مطابق انتخابات میں جن ووٹروں کے شریک ہونے کی توقع ہے۔ ان میں سے 44 فیصد مسٹر رامنی کےحامی ہیں، جب کہ مسٹر اوباما کے حامیوں کا تناسُب 52 فی صد ہے۔ اخبار کہتا ہے ، کہ وہائٹ ہاؤس کے حصول کے لئے مسٹر رامنی کے لئے ورجنیا کی کلیدی اہمیت ہے جس کے بغیر ان کے لئے الیکٹورل کالج کےکم از 270 ووٹ حاصل کرنا زیادہ مُشکل ہو جائے گا۔
’واشنگٹن پوسٹ‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں طالبان نے ایک نئی حکمت عملی اپنائی ہے جس کا زور علاقہ فتح کرنے پر کم اور اہم اہداف کو نشانہ بنانے پر زیادہ ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکی اور نیٹو فوجوں نے ان باغیوں کوجنوبی افغانستان کے وسیع علاقوں سے مار بھگایا ہےجس کے بعد طالبان کمانڈروں نے محاذ جنگ کی نئی پالیسی اختیار کی ہے۔ اس میں کھویا ہوا علاقہ واپس لینےکے مقابلے میں زیادہ توجہ اس گیارہ سالہ جنگ کے اگلے مرحلے میں کامیابی حاصل کرنے پر مرکوز ہے ۔
امریکی فوجی اور انٹلی جنس عہدہ داروں کا کہناہے کہ طالبان کما نڈروں نےاپنے زیادہ تر خود کُش بمباروں کو ملک بھر میں بڑے بڑے اہداف کو دیدہ دلیری سے نشانہ بنانے کے لئے بھیجنا شروع کیا ہے اور ان اہداف میں امریکی سفارت خانہ اور نیٹو کے قلعہ بند اڈّے شامل ہیں۔باغی لیڈروں نے افغانستان کے ایسےکلیدی سرکاری اور سیکیور ٹی کے عہدہ داروں کو قتل کرنے کی ایک زبردست مہم شروع کی ہے جو غیر ملکی فوجوں کے ملک چھوڑ دینے کے بعد ملک میں کلیدی قائدانہ کردار ادا کرنے والے ہیں۔ اس کے علاوہ طالبان نے دھوکے سے افغان فوج میں بھرتی ہو نے کے بعد متعددمغربی فوجیوں کو ہلاک کیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ طالبان نے پچھلے ایک سال کے دوران اعلیٰ اہداف پر جو کامیاب حملے کئے ہیں اور اعلیٰ عہدہ داروں کا قتل کیا ہے۔ اس کے پیش نظر ان شبہات نے جنم لیا ہے کہ سنہ 2014 میں نیٹو افواج کے چلے جانے کے بعدسرکاری افغان فوج اور سیکیورٹی فورسزاس قابل ہونگی کہ وہ باغیوں پر قابو پاسکیں۔
آڈیو رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجیئے:
Your browser doesn’t support HTML5
افغان سیکیورٹی فورسز میں طالبان جس طرح دہوکے سے گُھس جانے میں کامیاب ہوئے ہیں، اس کے پیش نظر مشترکہ گشتوں اور دوسرے ایسے مشنوں پر غیر معمولی پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں، جو کہ بقول اخبار کے، افغان فوجیوں کے ساتھ قریبی اشتراک قائم کرنے کی امریکی اور نیٹو حکمت عملی کے منافی ہے۔
اخبار نے اعلیٰ عہدہ داروں اور تجزیہ کاروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ حال ہی میں کابل کے اندر بڑےبڑے اہداف پر جو حملےہوئےہیں وُہ پاکستان میں مقیم حقانی نیٹ ورک جنگجؤوں کی کارستانی ہے۔ اور جو طالبان کے اُس دھڑے کے ساتھ مل کر کاروائی کرتے ہیں، جس کا لیڈر ملّا عمر ہے۔
’واشنگٹن پوسٹ‘ کہتا ہے کہ طالبان کی حکمت عملی میں اس تبدیلی کے نتیجے میں وہائٹ ہاؤس کی فوجیں کم کرنے کی پالیسی میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ اور اس ماہ کے آخر تک فوجوں کی واپسی کے بعد افغانستان میں امریکی فوجوں کی تعداد 68 ہزار رہ جائے گی۔ اس سال امریکی صدارتی انتخابات میں جو امید وار کامیاب ہوگا اس کا یہ فیصلہ کہ وہاں کتنی فوجیں رکھنی ہیں ۔ افغانستان میں تشدّدکی نوعیت سے اثر انداز ہوگا۔
نیویارک ٹائمز
امریکی انتخابی مہم کے دوران صدراتی امّید واروں کی طرف سے رازداری میں لا پرواہی سےدئیے گئے بیانات.اگر کسی طور منظر عام پر لائےجائیں تو ان سے متعلقہ امیدوار کی سُبکی کے علاوہ اس کے منتخب ہونے کے امکانات اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ ری پبلکن پارٹی کے امید وار مٹ رامنی آج کل ایسے ہی مخمسے میں اُلجھے ہوئے ہیں۔
اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ ایک اداریے میں کہتا ہے کہ ایک رسالے نے رامنی کا ایک ایسا ہی بیان طشت از بام کر دیا ہے۔ جس میں چندہ دینے والے رؤسا کی ایک نجی محفل میں انہوں نے رازداری میں کہا تھا کہ مسٹر اوباما کے حامی ووٹر ٹیکس نہیں دیتے۔
انہوں نے انہیں ایسا مفت خور قرار دیا جو حکومت سے اپنی کفالت کی توقّع کرتے ہیں۔
اخبار کہتا ہے مسٹر رامنی کی دانست میں یہ مفت خورےوُہ ہیں جن کی آمدنی دس ہزار سالانہ بھی نہیں، اورمعمولی ملازمتیں کرتے ہیں۔اسی طبقے میں زیادہ عمر والے امریکی ہیں جن کی سوشل سیکیوریٹی کی آمدنی اتنی کم ہے کہ اس پر ٹیکس نہیں لگ سکتا۔ اسی طبقے میں وہ لوگ بھی آتے ہیں ، جو اگر 50 ہزار بھی کماتے ہوں، پھر بھی اُنہیں بچوں اور مکان کی قسطوں سے ملنے والی مراعات کی وجہ سے ٹیکس نہیں دینا ہوتا۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹررامنی کا رُوئے سُخن اُن امریکیوں کی طرف بالکل نہیں تھا جو اتنی دولت کماتے ہیں، جو کوئی ٹیکس ادا کرنے سے با لکل بچ جاتے ہیں اور جو اُنہیں کی طرح سمندر پار ملکوں میں اپنی آمدنی چُھپا لیتے ہیں یا پھر ٹیکسوں کے نظام میں موجودسقم کا فائدہ اُٹھاتےہیں، جن کی مدد سے وُہ یہ بہانہ کر سکتے ہیں کہ آمدنی لگائے ہوئے سرمائے سے آ رہی ہے، جس پر ٹیکسوں کی شرح کم ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹر رامنی نے ان کاہل امریکیوں کے فرضی ٹولے کے بارے میں جو کُچھ کہا ہے ، غلط ہے ، کیونکہ امریکیوں کی بھاری اکثریت وفاقی اور ریاستی ٹیکس دیتی ہے ۔ اور حکو مت کی آمدنی کا مسلہ غریبوں کی وجہ سے پیدا نہیں ہوا ۔ بلکہ امیر ترین لوگون کی وجہ سے ہے۔ جو بُش دور کی ٹیکسوں کی چھوٹ ملنے کی وجہ سے ہوا ہے۔ اور یہ چھوٹ بند کرنے کا وقت آگیا ہے۔ لیکن ایسا اُس وقت تک نہیں ہو سکتا، جب تک مسٹر رامنی جیسے لوگ غریب اور متوسّط طبقے کو دُشمن بناکر دولتمندوں کی حفاظت کرتے رہیں گے ۔
واشنگٹن پوسٹ
ادھر واشنگٹن پوسٹ کے ایک تجزئے کے مطابق ورجنیا کی ریاست میں، جہا ں دونوں صدارتی امیدواروں کے درمیان مقابلہ سخت ہے، مسٹر اوباما کو رائےعامہ کے جائزوں میں واضح سبقت حاصل ہو رہی ہے۔
اخبار کے استصواب کے مطابق انتخابات میں جن ووٹروں کے شریک ہونے کی توقع ہے۔ ان میں سے 44 فیصد مسٹر رامنی کےحامی ہیں، جب کہ مسٹر اوباما کے حامیوں کا تناسُب 52 فی صد ہے۔ اخبار کہتا ہے ، کہ وہائٹ ہاؤس کے حصول کے لئے مسٹر رامنی کے لئے ورجنیا کی کلیدی اہمیت ہے جس کے بغیر ان کے لئے الیکٹورل کالج کےکم از 270 ووٹ حاصل کرنا زیادہ مُشکل ہو جائے گا۔