اِس حکومتی کارروائی کے نتیجے میں ملک میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ سوشل میڈیا کے غلط استعمال کا مقابلہ کس طرح کیا جائے
انٹرنیٹ پر اشتعال انگیز خبریں پھیلانےکے نتیجے میں بھارت کے شمال مشرقی علاقے میں خوف و ہراس پھیلنے کے بعد، جس میں کچھ لوگ بھارت کے شہر چھوڑنے پر مجبور ہوئے، بھارت نے 250سے زائد ویب سائٹس پر بندش عائد کردی ہے۔
اِس حکومتی کارروائی کےنتیجے میں ملک میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ سوشل میڈیا کے غلط استعمال کا کس طرح مقابلہ کیا جائے۔
حکام نے بتایا ہے کہ بند کیے گئے ویب سائٹس پر زلزلے میں ہلاک ہونے والوں کی تصاویرکو جوڑ توڑ کر پوسٹ کرکے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ وہ مسلمان ہیں جنھیں بھارت کے شمال مشرقی آسام کی ریاست کے نسلی فسادات اور برما میں ہلاک کیا گیا۔
ان تصاویر کا ہرجگہ چرچہ رہا اور یہ افواہیں عام ہونے لگیں کہ ملک کے شمال مشرق اور دیگر علاقوں میں ہندو تارکین وطن سے بدلہ لینے کا سلسلہ شروو ہو سکتا ہے۔ شدت پسندی پر مبنی نفرت آمیز پیغامات گردش کرنے لگے۔ اپنی سلامتی سے خائف ہوکر گذشتہ ہفتے ہزاروں پناہ گزیں بھارت کے شہروں سےآسام کی طرف لوٹنے پر مجبور ہوئے۔
لوگوں کے بڑی تعداد میں انخلا کو دیکھتے ہوئے حکومت نے کہا کہ، ’ملک کے اتحاد اور یکجہتی کو خطرہ لاحق ہے‘۔
وزیر داخلہ سشیل کمار شِنڈے نے کہا کہ ’عناصر‘ نے سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کو گروہ بندی کے جذبات بھڑکانے کے لیے استعمال کیا ہے۔
شِنڈے نے کہا کہ کئی ایک سائٹس پر پاکستان سے تصویریں پوسٹ کی گئی ہیں۔
شِنڈے نے مزید کہا کہ چھان بین کے نتیجے میں حکومت نے فیس بک یا ٹیکسٹ مسیجنگ کے مواد سے اس بارے میں بہت سارے ثبوت اکٹھے کیے ہیں۔
حکام نے ٹوٹر، یاہو اور فیس بک جیسےسوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر الزام لگایا کہ اُنھوں نے قابلِ اعتراض مواد کو نہیں ہٹایا۔
سائبر اسپیشلسٹوں کا کہنا ہے کہ حکومت کو الزام دینے کے کھیل سےباہر نکل آنا چاہیئے، اور گذشتہ ہفتے سابقہ پڑنے والے معاملے کے تناظر میں یہ دیکھنا ہوگا کہ سوشل میڈیا کے غلط استعمال کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا کچھ کیا جا سکتا ہے۔
بھارت میں تقریباً دس کروڑ افراد انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں، جو کہ دنیا میں نیٹ استعمال کرنے والے افراد کی ایک تہائی کے برابر ہے۔ دنیا کے تقریباً ستر کروڑ افراد موبائل فون استعمال کرتے ہیں۔
سائبر قوانین کے ماہر وکیل، پون ڈُگل نے کہا ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جس میں انٹرنیٹ اور موبائل فون ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ایک برادری میں خوف کا عنصر پھیلایا گیا ہے۔
پچھلے کچھ مہینوں سے حکومت کا گوگل اور فیس بک جیسی ویب کمپنیوں کے ساتھ ایک تنازعہ چل رہا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اِن اداروں کو رضاکارانہ طور پر ویب سے قابل اعتراض مواد کو ہٹانے کی ایک حکمت عملی وضع کرنی چاہیئے۔
عام طور پر بھارت اِن اداروں سے کہتا آیا ہے کہ وہ ایسے قابل اعتراض مواد کو ہٹالیں جس کے باعث ان افواہوں نے جنم لیا ہے کہ بھارت ویب کی آزادی کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
سنیل ابراہم بنگلور میں قائم ’سینٹر فور انٹرنیٹ اینڈ سوسائٹی‘ کے سربراہ ہیں، جو کہ نیٹ کی آزادی کی وکالت کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے ویب سائٹس پر کی گئی حالیہ کارروائی کا کوئی جواز نہیں ہے، تاہم اُن کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ سےچلنے والی افواہوں اور خطرات سے نبردآزما ہونے کے لیے ضروری ہے کہ بہتر اور جارحانہ طور طریقہ اپنایا جائے۔
ملٹی میڈیا اور ٹیکسٹ مسیجنگ پر بندش لگانے کے بعد حالیہ دنوں میں بھارت کے شہروں میں سے شمال مشرقی علاقوں کے پناہ گزینوں کا انخلا رک گیا ہے، اور حکومت کی طرف سے سلامتی سے متعلق یقین دہانیوں کے بعد خوف و ہراس میں کمی آگئی ہے۔
اِس حکومتی کارروائی کےنتیجے میں ملک میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ سوشل میڈیا کے غلط استعمال کا کس طرح مقابلہ کیا جائے۔
حکام نے بتایا ہے کہ بند کیے گئے ویب سائٹس پر زلزلے میں ہلاک ہونے والوں کی تصاویرکو جوڑ توڑ کر پوسٹ کرکے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ وہ مسلمان ہیں جنھیں بھارت کے شمال مشرقی آسام کی ریاست کے نسلی فسادات اور برما میں ہلاک کیا گیا۔
ان تصاویر کا ہرجگہ چرچہ رہا اور یہ افواہیں عام ہونے لگیں کہ ملک کے شمال مشرق اور دیگر علاقوں میں ہندو تارکین وطن سے بدلہ لینے کا سلسلہ شروو ہو سکتا ہے۔ شدت پسندی پر مبنی نفرت آمیز پیغامات گردش کرنے لگے۔ اپنی سلامتی سے خائف ہوکر گذشتہ ہفتے ہزاروں پناہ گزیں بھارت کے شہروں سےآسام کی طرف لوٹنے پر مجبور ہوئے۔
لوگوں کے بڑی تعداد میں انخلا کو دیکھتے ہوئے حکومت نے کہا کہ، ’ملک کے اتحاد اور یکجہتی کو خطرہ لاحق ہے‘۔
وزیر داخلہ سشیل کمار شِنڈے نے کہا کہ ’عناصر‘ نے سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کو گروہ بندی کے جذبات بھڑکانے کے لیے استعمال کیا ہے۔
شِنڈے نے کہا کہ کئی ایک سائٹس پر پاکستان سے تصویریں پوسٹ کی گئی ہیں۔
شِنڈے نے مزید کہا کہ چھان بین کے نتیجے میں حکومت نے فیس بک یا ٹیکسٹ مسیجنگ کے مواد سے اس بارے میں بہت سارے ثبوت اکٹھے کیے ہیں۔
حکام نے ٹوٹر، یاہو اور فیس بک جیسےسوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر الزام لگایا کہ اُنھوں نے قابلِ اعتراض مواد کو نہیں ہٹایا۔
سائبر اسپیشلسٹوں کا کہنا ہے کہ حکومت کو الزام دینے کے کھیل سےباہر نکل آنا چاہیئے، اور گذشتہ ہفتے سابقہ پڑنے والے معاملے کے تناظر میں یہ دیکھنا ہوگا کہ سوشل میڈیا کے غلط استعمال کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا کچھ کیا جا سکتا ہے۔
بھارت میں تقریباً دس کروڑ افراد انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں، جو کہ دنیا میں نیٹ استعمال کرنے والے افراد کی ایک تہائی کے برابر ہے۔ دنیا کے تقریباً ستر کروڑ افراد موبائل فون استعمال کرتے ہیں۔
سائبر قوانین کے ماہر وکیل، پون ڈُگل نے کہا ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جس میں انٹرنیٹ اور موبائل فون ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ایک برادری میں خوف کا عنصر پھیلایا گیا ہے۔
پچھلے کچھ مہینوں سے حکومت کا گوگل اور فیس بک جیسی ویب کمپنیوں کے ساتھ ایک تنازعہ چل رہا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اِن اداروں کو رضاکارانہ طور پر ویب سے قابل اعتراض مواد کو ہٹانے کی ایک حکمت عملی وضع کرنی چاہیئے۔
عام طور پر بھارت اِن اداروں سے کہتا آیا ہے کہ وہ ایسے قابل اعتراض مواد کو ہٹالیں جس کے باعث ان افواہوں نے جنم لیا ہے کہ بھارت ویب کی آزادی کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
سنیل ابراہم بنگلور میں قائم ’سینٹر فور انٹرنیٹ اینڈ سوسائٹی‘ کے سربراہ ہیں، جو کہ نیٹ کی آزادی کی وکالت کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے ویب سائٹس پر کی گئی حالیہ کارروائی کا کوئی جواز نہیں ہے، تاہم اُن کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ سےچلنے والی افواہوں اور خطرات سے نبردآزما ہونے کے لیے ضروری ہے کہ بہتر اور جارحانہ طور طریقہ اپنایا جائے۔
ملٹی میڈیا اور ٹیکسٹ مسیجنگ پر بندش لگانے کے بعد حالیہ دنوں میں بھارت کے شہروں میں سے شمال مشرقی علاقوں کے پناہ گزینوں کا انخلا رک گیا ہے، اور حکومت کی طرف سے سلامتی سے متعلق یقین دہانیوں کے بعد خوف و ہراس میں کمی آگئی ہے۔