عدالت نے انٹیلی جینس ایجنیسوں کے وکیل راجا ارشاد سے کہا کہ وہ اعتراف کر چکے ہیں کہ ان قیدیوں کے خلاف فوجی قانون کے تحت مقدمہ نہیں چلایا جا سکا تو پھر ان پر جو الزامات ہیں ان کے ثبوت پیش کیے جائیں۔
پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ نے اڈیالہ جیل سے رہائی کے بعد لاپتہ ہونے والے افراد سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران کہا کہ ان کے خلاف کوئی ثبوت ہیں تو پیش کیے جائیں ورنہ اُنھیں رہا کیا جائے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جمعرات کو ہونے والی سماعت میں عدالت نے انٹیلی جینس ایجنیسوں کے وکیل راجا ارشاد سے کہا کہ وہ اعتراف کر چکے ہیں کہ ان قیدیوں کے خلاف فوجی قانون کے تحت مقدمہ نہیں چلایا جا سکا تو پھر ان پر جو الزامات ہیں ان کے ثبوت پیش کیے جائیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ثبوت نہیں ہیں تو مشتبہ افراد کو بری ہو جانا چاہیئے تھا، اس پر وکیل راجہ ارشار نے کہا کہ وہ اپنا موقف تحریری طور پر عدالت کو دے چکے ہیں۔
مقدمے کی سماعت تین ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔
پاکستانی حکام نے 2009ء میں فوجی ہیڈ کوارٹرز اور آئی ایس آئی کی تنصیبات پر حملے کے شبے میں 11 افراد کو گرفتار کیا تھا لیکن ٹھوس شواہد کی عدم دستیابی کے بعد ان مشتبہ افراد کو انسداد دہشت گردی کی عدالتوں نے بری کر دیا تھا۔ تاہم جوں ہی یہ لوگ اڈیالہ جیل سے رہائی پانے کے بعد باہر نکلے انھیں فوج کے خفیہ اداروں نے اپنی تحویل میں لے لیا۔
دوران حراست ان میں سے چار افراد کی موت واقع ہونے کی اطلاعات منظر عام پر آنے کے بعد بعض زیرِ حراست افراد کے اہل خانہ کی درخواست پر سپریم کورٹ نے اس معاملے کا نوٹس لیا تھا۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جمعرات کو ہونے والی سماعت میں عدالت نے انٹیلی جینس ایجنیسوں کے وکیل راجا ارشاد سے کہا کہ وہ اعتراف کر چکے ہیں کہ ان قیدیوں کے خلاف فوجی قانون کے تحت مقدمہ نہیں چلایا جا سکا تو پھر ان پر جو الزامات ہیں ان کے ثبوت پیش کیے جائیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ثبوت نہیں ہیں تو مشتبہ افراد کو بری ہو جانا چاہیئے تھا، اس پر وکیل راجہ ارشار نے کہا کہ وہ اپنا موقف تحریری طور پر عدالت کو دے چکے ہیں۔
مقدمے کی سماعت تین ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔
پاکستانی حکام نے 2009ء میں فوجی ہیڈ کوارٹرز اور آئی ایس آئی کی تنصیبات پر حملے کے شبے میں 11 افراد کو گرفتار کیا تھا لیکن ٹھوس شواہد کی عدم دستیابی کے بعد ان مشتبہ افراد کو انسداد دہشت گردی کی عدالتوں نے بری کر دیا تھا۔ تاہم جوں ہی یہ لوگ اڈیالہ جیل سے رہائی پانے کے بعد باہر نکلے انھیں فوج کے خفیہ اداروں نے اپنی تحویل میں لے لیا۔
دوران حراست ان میں سے چار افراد کی موت واقع ہونے کی اطلاعات منظر عام پر آنے کے بعد بعض زیرِ حراست افراد کے اہل خانہ کی درخواست پر سپریم کورٹ نے اس معاملے کا نوٹس لیا تھا۔