ایسے میں صرف کسان ہی پریشان نہیں بلکہ حکومت بھی فکرمند ہو گئی اور اس کا توڑ کرنے کے طریقوں پر غور وفکر شروع کردیا گیا۔ کرناٹک کی ریاستی حکومت کی باگ ڈور بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہاتھ میں ہے
جنوبی ایشیا خاص کر بھارت اور پاکستان میں گھر گھر کے آتی کالی گھٹاوٴں اور رم جھم برستے ساون سے ایک خاص قسم کا ”رومانس “ وابستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مینہ برستے ہی ماحول میں شوخی اور زندگی در آتی ہے، حالانکہ اب تو رم جھم برستی بارش کے ساتھ سڑکوں کے تالاب بننے اور بجلی کے غائب ہونے کا منظر بھی لازم و ملزوم سا ہوگیا ہے۔
آسمان سے برستی بوچھاڑ نظاروں کو ہی دھو دھلا کر صاف ستھرا نہیں کرتی، بلکہ آسمان سے اترتا پانی انسانی زندگی کے لئے بھی آب حیات کا درجہ رکھتا ہے ۔لیکن، اگر یہی پانی برسنا بند کردے تو قحط جیسی خوفناک عفریت دستک دینے لگتی ہے۔ بدقسمتی سے اسی خوف کا شکار ہیں آج کل بھارت کے شمالی و جنوبی علاقے ۔
آئرلینڈ کے ایک اخبار ”آئرش ٹائمز “ کے مطابق بارشوں کے روٹھ جانے کے سبب بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک کو بیالیس سال میں ہونے والے بد ترین قحط کا سامنا ہے۔ مون سون بارشیں کم ہونے کی وجہ سے ریاست کے 176 میں سے ایک سو پچاس سب ڈیوژنز کو خشک سالی کا سامنا ہے ۔ خشک سالی اور قحط کے سبب لوگ محفوظ علاقوں کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں لیکن یہ علاقے بھی کم و بیش ایسی ہی صورتحال کا شکار ہیں۔
ایسے میں صرف کسان ہی پریشان نہیں بلکہ حکومت بھی فکرمند ہو گئی اور اس کا توڑ کرنے کے طریقوں پر غور وفکر شروع کردیا گیا۔ کرناٹک کی ریاستی حکومت کی باگ ڈور بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہاتھ میں ہے۔ حکومت کے کرتا دھرتاوٴں نے سوچا کہ بارش کے دیوتاوٴں کو خوش کر کے کام نکلوایا جا سکتا ہے اس لئے سرکاری سطح پر ریاست کے 34ہزار مندروں میں خصوصی پوجا کروانے حکم جاری کیا گیا۔
صرف خالی خولی حکم ہی جاری نہیں کیا گیا، بلکہ خبروں کے مطابق، اس کام کے لئے باقاعدہ ایک کروڑ ستر لاکھ روپے کی رقم بھی کرناٹک بھر کے مندروں کے منتظمین میں تقسیم کی گئی تا کہ پوچا پاٹ کا بندوبست اچھے طریقے سے کیا جا سکے۔
بی جے پی نے اپنے مذہبی کلینڈر کے مطابق دو روزہ پوجا کے لئے ’شبھ مہورت‘ نکلوایا جس میں جولائی ستائیس اور دو اگست کی تاریخیں نکلیں۔اب اسے اتفاق کہیں یا کچھ اور لیکن کچھ علاقوں میں بارشوں کا سلسلہ شروع بھی ہوگیا۔
لیکن اس سب سے قطع نظر سرکاری ذرائع مانتے ہیں کہ مون سون کے منہ موڑ لینے کے سبب فصلیں تباہ ہوگئیں، زیر زمین پانی بھی کم ہو گیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ پینے کا پانی ٹینکرز سے سپلائی کیا جارہا ہے۔
ادھر بی جے پی مخالف تنظیموں نے سرکاری خرچ پر پوجا کرانے پر بی جے پی کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ یہی پیسہ اگر قحط سے بچاوٴ کی اسکیموں اور تدابیر پر لگادیا جاتاتو وہ زیادہ دیر پااو ر موثر ہوتا۔
تنقید کا جواب دینے میدان میں اترے کرناٹک کے فنڈز برائے مذہبی امور کے وزیر کوٹا سری نواسا پجاری۔ انھوں نے اپنا موقف کچھ یوں بیان کیا:”میں نے پوجا کے لئے رقم مختص کر کے کچھ غلط نہیں کیا۔ ہم اس مشکل صورتحال سے دیوتاوٴں کی مدد سے ہی نکل سکتے ہیں“
محکمہ موسمیات نے اس سال بھارت میں معمول سے کم مون سون بارشیں ہونے کی پیش گوئی کی تھی۔
آسمان سے برستی بوچھاڑ نظاروں کو ہی دھو دھلا کر صاف ستھرا نہیں کرتی، بلکہ آسمان سے اترتا پانی انسانی زندگی کے لئے بھی آب حیات کا درجہ رکھتا ہے ۔لیکن، اگر یہی پانی برسنا بند کردے تو قحط جیسی خوفناک عفریت دستک دینے لگتی ہے۔ بدقسمتی سے اسی خوف کا شکار ہیں آج کل بھارت کے شمالی و جنوبی علاقے ۔
آئرلینڈ کے ایک اخبار ”آئرش ٹائمز “ کے مطابق بارشوں کے روٹھ جانے کے سبب بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک کو بیالیس سال میں ہونے والے بد ترین قحط کا سامنا ہے۔ مون سون بارشیں کم ہونے کی وجہ سے ریاست کے 176 میں سے ایک سو پچاس سب ڈیوژنز کو خشک سالی کا سامنا ہے ۔ خشک سالی اور قحط کے سبب لوگ محفوظ علاقوں کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں لیکن یہ علاقے بھی کم و بیش ایسی ہی صورتحال کا شکار ہیں۔
ایسے میں صرف کسان ہی پریشان نہیں بلکہ حکومت بھی فکرمند ہو گئی اور اس کا توڑ کرنے کے طریقوں پر غور وفکر شروع کردیا گیا۔ کرناٹک کی ریاستی حکومت کی باگ ڈور بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہاتھ میں ہے۔ حکومت کے کرتا دھرتاوٴں نے سوچا کہ بارش کے دیوتاوٴں کو خوش کر کے کام نکلوایا جا سکتا ہے اس لئے سرکاری سطح پر ریاست کے 34ہزار مندروں میں خصوصی پوجا کروانے حکم جاری کیا گیا۔
صرف خالی خولی حکم ہی جاری نہیں کیا گیا، بلکہ خبروں کے مطابق، اس کام کے لئے باقاعدہ ایک کروڑ ستر لاکھ روپے کی رقم بھی کرناٹک بھر کے مندروں کے منتظمین میں تقسیم کی گئی تا کہ پوچا پاٹ کا بندوبست اچھے طریقے سے کیا جا سکے۔
بی جے پی نے اپنے مذہبی کلینڈر کے مطابق دو روزہ پوجا کے لئے ’شبھ مہورت‘ نکلوایا جس میں جولائی ستائیس اور دو اگست کی تاریخیں نکلیں۔اب اسے اتفاق کہیں یا کچھ اور لیکن کچھ علاقوں میں بارشوں کا سلسلہ شروع بھی ہوگیا۔
لیکن اس سب سے قطع نظر سرکاری ذرائع مانتے ہیں کہ مون سون کے منہ موڑ لینے کے سبب فصلیں تباہ ہوگئیں، زیر زمین پانی بھی کم ہو گیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ پینے کا پانی ٹینکرز سے سپلائی کیا جارہا ہے۔
ادھر بی جے پی مخالف تنظیموں نے سرکاری خرچ پر پوجا کرانے پر بی جے پی کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ یہی پیسہ اگر قحط سے بچاوٴ کی اسکیموں اور تدابیر پر لگادیا جاتاتو وہ زیادہ دیر پااو ر موثر ہوتا۔
تنقید کا جواب دینے میدان میں اترے کرناٹک کے فنڈز برائے مذہبی امور کے وزیر کوٹا سری نواسا پجاری۔ انھوں نے اپنا موقف کچھ یوں بیان کیا:”میں نے پوجا کے لئے رقم مختص کر کے کچھ غلط نہیں کیا۔ ہم اس مشکل صورتحال سے دیوتاوٴں کی مدد سے ہی نکل سکتے ہیں“
محکمہ موسمیات نے اس سال بھارت میں معمول سے کم مون سون بارشیں ہونے کی پیش گوئی کی تھی۔