سروا کا کہنا ہے ” بھارت کی خاتون اول بننا میرے لئے یادگار لمحہ ہے ۔ مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے ، میری بیٹی اور بیٹا بھی یہاں آنے والا ہے ۔ ہم سب بہت خوش ہیں۔“
بھارت کے نومنتخب صدر پرناب مکھرجی اور ان کی اہلیہ سروا مکھرجی میں پچھلے 55برسوں میں ایک مرتبہ بھی لڑائی یا ”تو تو میں میں“ نہیں ہوئی۔ بلکہ وہ کہتی ہیں ” وہ ہر صبح تیار ہونے کے بعد میری پیشانی پر ہاتھ رکھتے اور منتر پڑھ کر پھونکتے ہیں۔۔ یہ میرے لئے ان کا اظہارمحبت ہے“
بھارت کے 13ویں مگر پہلے بنگالی صدر منتخب ہونا خود مکھرجی کے ساتھ ساتھ سروا کے لئے بھی ایک یادگار لمحہ ہے۔ اس موقع پر بھارت کے ایک مؤقر اخبار ”ٹائمز آف انڈیا“ نے سروا مکھرجی کا ایک مختصر سا مگر دلچسپ انٹرویو شائع کیا ہے۔ اس انٹرویو کی تفصیلات زی نیوز کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہیں ۔
ادنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک کے صدر کی اہلیہ کا اعزاز حاصل ہونے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں سروا کا کہنا تھا ” بھارت کی خاتون اول بننا میرے لئے یادگار لمحہ ہے ۔ مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے ، میری بیٹی اور بیٹا بھی یہاں آنے والا ہے ۔ ہم سب بہت خوش ہیں۔“
اس سوال کے جواب میں کہ کیا آپ نے انہیں بھارت کے پہلے بنگالی صدر منتخب ہونے پر مبا رکباد دی؟۔۔ان کا کہنا تھا ”نہیں۔ ہم آج کل کے جوڑوں سے زرا مختلف ہیں۔نہ تو یہ اوپری محبت ہے اور نہ ہی ہم اپنے جذبات کااظہار کھلم کھلا کرتے ہیں۔ہماری محبت دل اور ذہنوں میں ہے۔ ہم تو ایک دوسرے سے رومینٹک گفتگو بھی نہیں کرتے۔ ہماری عمر میں ایک دوسرے پرمکمل اور کھلے دل سے انحصار کیا جاتا ہے۔ ان کا میرے لئے محبت کا اظہار مختلف انداز کا ہے۔ہماری شادی کو 55 سال ہو گئے ہیں اور ان55 برسوں میں ہماری ایک دفعہ بھی لڑائی نہیں ہوئی۔وہ ہر صبح تیار ہونے کے بعد میری پیشانی پر ہاتھ رکھتے اور منتر پڑھ کر پھونکتے ہیں۔۔ یہ میرے لئے ان کا اظہار محبت ہے“
صدارتی منصب سنبھالنے پر کوئی تحفہ دینے سے متعلق ان کا کہنا تھا”محبت سے بڑھ کر خاص تحفہ اور کیا ہو سکتا ہے۔۔۔“ حلف برداری کی تقریب میں مکھرجی کی گفٹ کردہ نئی ساڑھی پہننے سے متعلق ان کا کہنا ہے” میں ویسی ہی ساڑھی پہنوں گی جیسی سال کے باقی دنوں میں پہنتی ہوں۔اس دن کے لئے کچھ خاص نہیں ۔ اور انہوں نے مجھے کبھی ساڑھی لا کر نہیں دی۔ان کو اپنے کام سے عشق ہے۔ کام ان کی زندگی ہے۔ اگر وہ کام نہیں کرتے تو کتابوں میں گم رہتے ہیں۔“
پرناب مکھرجی کی پسندیدہ ڈش کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ مکھرجی کو آلو اور جھینگے بہت پسند ہیں لیکن اپنی صحت کی خرابی کی وجہ سے وہ خود کوکنگ نہیں کرپاتیں۔
’کیا آپ نے راشٹر پتی بھون کے کمروں کی سیٹنگ سے متعلق ان سے با ت کی ہے؟‘اس سوال پر سروا کا کہنا تھا ”نہیں۔وہ ان سب چیزوں سے کوسوں دور ہیں۔گھریلوامور میں میں ہی فیصلے کرتی ہوں۔ جب ہم دہلی آئے تو ہمار ے پاس زیادہ سامان نہیں تھالیکن آج ہمارے پاس سب کچھ ہے۔دیکھتے ہیں راشٹر پتی بھون میں کیا رہتا ہے۔ مجھے بس ایک بات کی فکر ہے۔ میرا تانپورہ اور ہارمونیم میرے لئے بہت قیمتی ہے ،اسے بحفاظت راشٹرپتی بھون پہنچایا جائے۔ایک اور چیز جسے طے کرنا باقی ہے وہ یہ کہ مندر کون سے کمر ے میں بنایا جائے گا۔“
ماضی کی یادوں میں جھانکتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا ” میرے ساس سسر اور میری ماں ہوتے تو انہیں صدر بنتا دیکھ کر بہت خوش ہوتے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ ان کا آشیرواد ان کے ساتھ ہے۔میری ماں مجھے اکثر کہا کرتی تھیں’مجھے یقین ہے میرا داماد ایک دن وزیر بنے گا۔ یہ بہت قابل ہے‘۔ اور میں ان سے کہتی تھی کہ ایسی باتیں نہ کیا کریں۔ لیکن ان کے پاس اپنے جواز اور وجوہ ہوتی تھیں۔وہ کہتی تھیں’ آپ اپنے ملک کے لئے اس وقت تک کچھ نہیں کرسکتے جب تک آپ کے پاس قابلیت اور اختیار نہ ہو۔‘اور آج ان کا داماد صدر بن گیا۔ اگر آج وہ ہوتیں تو بے انتہا خوش ہوتیں۔“
بھارت کے 13ویں مگر پہلے بنگالی صدر منتخب ہونا خود مکھرجی کے ساتھ ساتھ سروا کے لئے بھی ایک یادگار لمحہ ہے۔ اس موقع پر بھارت کے ایک مؤقر اخبار ”ٹائمز آف انڈیا“ نے سروا مکھرجی کا ایک مختصر سا مگر دلچسپ انٹرویو شائع کیا ہے۔ اس انٹرویو کی تفصیلات زی نیوز کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہیں ۔
ادنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک کے صدر کی اہلیہ کا اعزاز حاصل ہونے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں سروا کا کہنا تھا ” بھارت کی خاتون اول بننا میرے لئے یادگار لمحہ ہے ۔ مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے ، میری بیٹی اور بیٹا بھی یہاں آنے والا ہے ۔ ہم سب بہت خوش ہیں۔“
اس سوال کے جواب میں کہ کیا آپ نے انہیں بھارت کے پہلے بنگالی صدر منتخب ہونے پر مبا رکباد دی؟۔۔ان کا کہنا تھا ”نہیں۔ ہم آج کل کے جوڑوں سے زرا مختلف ہیں۔نہ تو یہ اوپری محبت ہے اور نہ ہی ہم اپنے جذبات کااظہار کھلم کھلا کرتے ہیں۔ہماری محبت دل اور ذہنوں میں ہے۔ ہم تو ایک دوسرے سے رومینٹک گفتگو بھی نہیں کرتے۔ ہماری عمر میں ایک دوسرے پرمکمل اور کھلے دل سے انحصار کیا جاتا ہے۔ ان کا میرے لئے محبت کا اظہار مختلف انداز کا ہے۔ہماری شادی کو 55 سال ہو گئے ہیں اور ان55 برسوں میں ہماری ایک دفعہ بھی لڑائی نہیں ہوئی۔وہ ہر صبح تیار ہونے کے بعد میری پیشانی پر ہاتھ رکھتے اور منتر پڑھ کر پھونکتے ہیں۔۔ یہ میرے لئے ان کا اظہار محبت ہے“
صدارتی منصب سنبھالنے پر کوئی تحفہ دینے سے متعلق ان کا کہنا تھا”محبت سے بڑھ کر خاص تحفہ اور کیا ہو سکتا ہے۔۔۔“ حلف برداری کی تقریب میں مکھرجی کی گفٹ کردہ نئی ساڑھی پہننے سے متعلق ان کا کہنا ہے” میں ویسی ہی ساڑھی پہنوں گی جیسی سال کے باقی دنوں میں پہنتی ہوں۔اس دن کے لئے کچھ خاص نہیں ۔ اور انہوں نے مجھے کبھی ساڑھی لا کر نہیں دی۔ان کو اپنے کام سے عشق ہے۔ کام ان کی زندگی ہے۔ اگر وہ کام نہیں کرتے تو کتابوں میں گم رہتے ہیں۔“
پرناب مکھرجی کی پسندیدہ ڈش کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ مکھرجی کو آلو اور جھینگے بہت پسند ہیں لیکن اپنی صحت کی خرابی کی وجہ سے وہ خود کوکنگ نہیں کرپاتیں۔
’کیا آپ نے راشٹر پتی بھون کے کمروں کی سیٹنگ سے متعلق ان سے با ت کی ہے؟‘اس سوال پر سروا کا کہنا تھا ”نہیں۔وہ ان سب چیزوں سے کوسوں دور ہیں۔گھریلوامور میں میں ہی فیصلے کرتی ہوں۔ جب ہم دہلی آئے تو ہمار ے پاس زیادہ سامان نہیں تھالیکن آج ہمارے پاس سب کچھ ہے۔دیکھتے ہیں راشٹر پتی بھون میں کیا رہتا ہے۔ مجھے بس ایک بات کی فکر ہے۔ میرا تانپورہ اور ہارمونیم میرے لئے بہت قیمتی ہے ،اسے بحفاظت راشٹرپتی بھون پہنچایا جائے۔ایک اور چیز جسے طے کرنا باقی ہے وہ یہ کہ مندر کون سے کمر ے میں بنایا جائے گا۔“
ماضی کی یادوں میں جھانکتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا ” میرے ساس سسر اور میری ماں ہوتے تو انہیں صدر بنتا دیکھ کر بہت خوش ہوتے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ ان کا آشیرواد ان کے ساتھ ہے۔میری ماں مجھے اکثر کہا کرتی تھیں’مجھے یقین ہے میرا داماد ایک دن وزیر بنے گا۔ یہ بہت قابل ہے‘۔ اور میں ان سے کہتی تھی کہ ایسی باتیں نہ کیا کریں۔ لیکن ان کے پاس اپنے جواز اور وجوہ ہوتی تھیں۔وہ کہتی تھیں’ آپ اپنے ملک کے لئے اس وقت تک کچھ نہیں کرسکتے جب تک آپ کے پاس قابلیت اور اختیار نہ ہو۔‘اور آج ان کا داماد صدر بن گیا۔ اگر آج وہ ہوتیں تو بے انتہا خوش ہوتیں۔“