صدارتی حکم نامے کا مسودہ تیار کیا جا چکا ہے اور مشاورت کے لیے دستاویز کی نقول فاٹا سے منتخب اراکین پارلیمان کو بھی فراہم کر دی گئی ہیں۔
پاکستان میں وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی خطہ یا ’فاٹا‘ کئی دہائیوں تک عدم توجہ کا شکار رہا ہے، مگر شدت پسندی میں غیر معمولی اضافے کے باعث ان پسماندہ علاقوں کی اقتصادی و سیاسی خوشحالی کو یقینی بنانے کے لیے انھیں قومی دھارے میں شامل کرنے کے مطالبات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔
گزشتہ سال 13 اور 14 اگست کی درمیانی شب صدر آصف علی زرداری نے فاٹا میں جرائم کی روک تھام کے لیے رائج برطانوی دورِ حکومت کے ’فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن‘ (ایف سی آر) نامی متنازع قانون میں ترامیم کی منظوری دی تھی، جن میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت بھی شامل ہے۔
اصلاحات کے اس سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے اطلاعات کے مطابق اس مرتبہ یوم آزادی کے موقع پر ملک کے دیگر حصوں کی طرز پرقبائلی علاقوں میں بھی مقامی حکومت کا نظام متعراف کروانے کا اعلان متوقع ہے۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس ضمن میں صدارتی حکم نامے کا مسودہ تیار کیا جا چکا ہے، اور مشاورت کے لیے دستاویز کی نقول فاٹا سے منتخب اراکین پارلیمان کو بھی فراہم کر دی گئی ہیں۔
پارلیمان میں خیبر ایجنسی کی نمائندگی کرنے والے حمید اللہ جان آفریدی اقتدار کی نجلی سطح پر منتقلی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ قبائل اپنے مسائل خود بہتر انداز میں حل کر سکتے ہیں۔
اُنھوں نے بھی عندیہ دیا ہے کہ صدر زرداری رواں سال فاٹا میں انتظامی تبدیلی متعارف کرانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
’’اب وقت آ گیا ہے کہ فاٹا (کے قبائل) کو، اصل معنوں میں، اس کا اقتدار دینا چاہیئے۔ منتخب کونسل ہو جس کا سربراہ ایجنسیوں سے منتخب ہوا ہو اور ادھر بیٹھا ہوا ہو، تو میں سمجھتا ہوں ان (لوگوں) کا احساس محرومی دور ہو جائے گا ... اگر آپ نے قبائلیوں کو مسئلے مسائل سے آزاد کرنا ہے تو یہ اس کا مختصر طریقہ ہے اور صدرِ مملکت نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ وہ اس منتخب کونسل کا اسی دور میں اعلان کر دیں گے۔‘‘
حمید اللہ جان آفریدی کے بقول قبائلی خطے میں تعمیر و ترقی کا عمل کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مقامی عمائدین اور عوامی نمائندوں کو منصوبہ بندی سے لے کر عمل درآمد تک تمام مرحلوں میں شامل کیا جائے۔ تاہم انھوں نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ فاٹا میں عسکریت پسندی میں اضافہ کی وجہ غربت اور پسماندگی ہے۔
’’قبائلی لوگ سمجھ چکے ہیں کہ مسئلہ کیا ہے اور اگر باہر والے ہاتھ، غیر قبائلی ہاتھ، وہاں سے نکال دیں تو اس معاملے سے نمٹنا کوئی بڑی بات نہیں ہے اور یہ میں چیلنج سے کہہ سکتا ہوں اس کی تاریخ گواہ ہے ... لیکن (قبائلی) خاموش اس لیے بیٹھے ہیں کہ ان کو نظر آتا ہے کہ یہ (عسکریت پسند) کسی کے صف اول کے سپاہی ہیں، اور جن کے سپاہی ہیں وہ حکومتیں ہیں، وہ اقتدار ہے وہ ایک قوت ہے۔ لہذا اس قوت سے ٹکرنا ہمارے حق میں نہیں ہے بصورت دیگر یہ ہزاروں کی تعداد والے جو لوگ ہیں ان کو قبائل خود بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔‘‘
مقامی حکومت کے مجوزہ قانون کے تحت قبائلی ایجنسیوں کو ’ٹاونز‘ میں تقسیم کرکے لوکل کونسلز قائم کی جائیں گی جن کے سربراہان چیئرمین کہلائیں گے۔ ان بلدیاتی اداروں کی ذمہ داریوں میں صفائی ستھرائی، صحت عامہ، بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور کھیل و ثقافت جیسے اُمور کی نگرانی شامل ہوگی۔
گزشتہ سال 13 اور 14 اگست کی درمیانی شب صدر آصف علی زرداری نے فاٹا میں جرائم کی روک تھام کے لیے رائج برطانوی دورِ حکومت کے ’فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن‘ (ایف سی آر) نامی متنازع قانون میں ترامیم کی منظوری دی تھی، جن میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت بھی شامل ہے۔
اصلاحات کے اس سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے اطلاعات کے مطابق اس مرتبہ یوم آزادی کے موقع پر ملک کے دیگر حصوں کی طرز پرقبائلی علاقوں میں بھی مقامی حکومت کا نظام متعراف کروانے کا اعلان متوقع ہے۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس ضمن میں صدارتی حکم نامے کا مسودہ تیار کیا جا چکا ہے، اور مشاورت کے لیے دستاویز کی نقول فاٹا سے منتخب اراکین پارلیمان کو بھی فراہم کر دی گئی ہیں۔
پارلیمان میں خیبر ایجنسی کی نمائندگی کرنے والے حمید اللہ جان آفریدی اقتدار کی نجلی سطح پر منتقلی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ قبائل اپنے مسائل خود بہتر انداز میں حل کر سکتے ہیں۔
اُنھوں نے بھی عندیہ دیا ہے کہ صدر زرداری رواں سال فاٹا میں انتظامی تبدیلی متعارف کرانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
’’اب وقت آ گیا ہے کہ فاٹا (کے قبائل) کو، اصل معنوں میں، اس کا اقتدار دینا چاہیئے۔ منتخب کونسل ہو جس کا سربراہ ایجنسیوں سے منتخب ہوا ہو اور ادھر بیٹھا ہوا ہو، تو میں سمجھتا ہوں ان (لوگوں) کا احساس محرومی دور ہو جائے گا ... اگر آپ نے قبائلیوں کو مسئلے مسائل سے آزاد کرنا ہے تو یہ اس کا مختصر طریقہ ہے اور صدرِ مملکت نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ وہ اس منتخب کونسل کا اسی دور میں اعلان کر دیں گے۔‘‘
حمید اللہ جان آفریدی کے بقول قبائلی خطے میں تعمیر و ترقی کا عمل کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مقامی عمائدین اور عوامی نمائندوں کو منصوبہ بندی سے لے کر عمل درآمد تک تمام مرحلوں میں شامل کیا جائے۔ تاہم انھوں نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ فاٹا میں عسکریت پسندی میں اضافہ کی وجہ غربت اور پسماندگی ہے۔
’’قبائلی لوگ سمجھ چکے ہیں کہ مسئلہ کیا ہے اور اگر باہر والے ہاتھ، غیر قبائلی ہاتھ، وہاں سے نکال دیں تو اس معاملے سے نمٹنا کوئی بڑی بات نہیں ہے اور یہ میں چیلنج سے کہہ سکتا ہوں اس کی تاریخ گواہ ہے ... لیکن (قبائلی) خاموش اس لیے بیٹھے ہیں کہ ان کو نظر آتا ہے کہ یہ (عسکریت پسند) کسی کے صف اول کے سپاہی ہیں، اور جن کے سپاہی ہیں وہ حکومتیں ہیں، وہ اقتدار ہے وہ ایک قوت ہے۔ لہذا اس قوت سے ٹکرنا ہمارے حق میں نہیں ہے بصورت دیگر یہ ہزاروں کی تعداد والے جو لوگ ہیں ان کو قبائل خود بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔‘‘
مقامی حکومت کے مجوزہ قانون کے تحت قبائلی ایجنسیوں کو ’ٹاونز‘ میں تقسیم کرکے لوکل کونسلز قائم کی جائیں گی جن کے سربراہان چیئرمین کہلائیں گے۔ ان بلدیاتی اداروں کی ذمہ داریوں میں صفائی ستھرائی، صحت عامہ، بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور کھیل و ثقافت جیسے اُمور کی نگرانی شامل ہوگی۔