اِس قانون کا اطلاق ایسی ’این جی اوز‘ پر ہوتا ہے جو سیاسی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ حکومتِ روس کی طرف سے اپنے ناقدین کو خاموش کرنے کی ایک حربہ ہے
غیر سرکاری تنظیمیں (این جی اوز) جنھیں بیرون ِملک سے مالی امداد موصول ہوتی ہیں اُنھیں ’غیر ملکی ایجنٹ‘ قرار دیے جانے پر روس کے سرگرم کارکنوں نےحکومت پر نکتہ چینی کی ہے۔
ہفتے کو کریملن نے کہا کہ صدر ولادیمیر پیوٹن نے اِس متنازعہ اقدام پر دستخط کردیے ہیں، جِس کی پارلیمان نے اِسی ماہ منظوری دی تھی۔
اِس قانون کا اطلاق ایسی ’این جی اوز‘ پر ہوتا ہے جو سیاسی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ حکومتِ روس کی طرف سے اپنے ناقدین کو خاموش کرنے کی ایک حربہ ہے۔
لیو پونوماریف ، ’ہیومن رائٹس گروپ‘ کے لیے کام کرنے والی روس کی سب سے بڑی غیر سرکاری تنظیم کے سربراہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اُن کی تنظیم اِس نئے ضابطے کو نہیں مانتی۔
اُن کے بقول، منظور کیا گیا ضابطہ غیر قانونی ہے۔ یہی وجہ ہے ہم، جو کہ روسی شہریوں پر زور دیتے آئے ہیں کہ وہ اپنے حقوق کا تحفظ کریں، ضرورت اِس بات کی ہے کہ ہم اپنے حقوق کا بھی دفاع کریں، جس کے لیے ہمیں تمام قانونی ذرائع استعمال کرنے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم یہ کر دکھائیں گے۔ ہم اِس قانون کو نہیں مانیں گے، ہم شہری نافرمانی کی مہم کا اعلان کرتے ہیں اور تمام قانونی ذرائع استعمال کرتے ہوئے ہم اِس ضابطے کے خلاف لڑیں گے۔
’ماسکو ہیلی سنکی گروپ ‘ سے تعلق رکھنے والی راہنما، لیودمیلا الیگزیوف نے بھی اِس اقدام کے خلاف مایوسی کا اظہار کیا۔
اُنھوں نے کہا کہ اُن کا گروپ غیر ملکی مالی اعانت وصول کرنے سے انکار کرے گا، تاکہ قانون کے اندر رہتے ہوئے کام کیا جاسکے۔
رواں ماہ کے آغاز پر امریکی محکمہٴ خارجہ نے اِس شق کے بارے میں اپنی ’ گہری تشویش‘ کا اظہار کیا تھا ، جسےغیر ملکی مداخلت کہتے ہوئے روس کی حکومت نےمسترد کیا تھا۔
اِس نئے ضابطے پر عمل درآمد سے ایک ماہ قبل صدر پیوٹن نے ایک بل پر دستخط کیے تھے جِس کے تحت بغیر اجازت کے احتجاجی ریلیاں نکالنے پر بھاری جرمانے تجویز کیے گئے تھے۔
ہفتے کو کریملن نے کہا کہ صدر ولادیمیر پیوٹن نے اِس متنازعہ اقدام پر دستخط کردیے ہیں، جِس کی پارلیمان نے اِسی ماہ منظوری دی تھی۔
اِس قانون کا اطلاق ایسی ’این جی اوز‘ پر ہوتا ہے جو سیاسی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ حکومتِ روس کی طرف سے اپنے ناقدین کو خاموش کرنے کی ایک حربہ ہے۔
لیو پونوماریف ، ’ہیومن رائٹس گروپ‘ کے لیے کام کرنے والی روس کی سب سے بڑی غیر سرکاری تنظیم کے سربراہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اُن کی تنظیم اِس نئے ضابطے کو نہیں مانتی۔
اُن کے بقول، منظور کیا گیا ضابطہ غیر قانونی ہے۔ یہی وجہ ہے ہم، جو کہ روسی شہریوں پر زور دیتے آئے ہیں کہ وہ اپنے حقوق کا تحفظ کریں، ضرورت اِس بات کی ہے کہ ہم اپنے حقوق کا بھی دفاع کریں، جس کے لیے ہمیں تمام قانونی ذرائع استعمال کرنے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم یہ کر دکھائیں گے۔ ہم اِس قانون کو نہیں مانیں گے، ہم شہری نافرمانی کی مہم کا اعلان کرتے ہیں اور تمام قانونی ذرائع استعمال کرتے ہوئے ہم اِس ضابطے کے خلاف لڑیں گے۔
’ماسکو ہیلی سنکی گروپ ‘ سے تعلق رکھنے والی راہنما، لیودمیلا الیگزیوف نے بھی اِس اقدام کے خلاف مایوسی کا اظہار کیا۔
اُنھوں نے کہا کہ اُن کا گروپ غیر ملکی مالی اعانت وصول کرنے سے انکار کرے گا، تاکہ قانون کے اندر رہتے ہوئے کام کیا جاسکے۔
رواں ماہ کے آغاز پر امریکی محکمہٴ خارجہ نے اِس شق کے بارے میں اپنی ’ گہری تشویش‘ کا اظہار کیا تھا ، جسےغیر ملکی مداخلت کہتے ہوئے روس کی حکومت نےمسترد کیا تھا۔
اِس نئے ضابطے پر عمل درآمد سے ایک ماہ قبل صدر پیوٹن نے ایک بل پر دستخط کیے تھے جِس کے تحت بغیر اجازت کے احتجاجی ریلیاں نکالنے پر بھاری جرمانے تجویز کیے گئے تھے۔