اطلاعات کے مطابق متاثرہ افراد کو انسانی اسمگلر ایران کے سرحدی علاقے کی طرف لے جارہے تھے جہاں سے اُن کی اگلی منزل یورپی ممالک خیال کی جاتی ہے
بلوچستان کے ضلع تربت میں جمعے کی شب مشتبہ بلوچ باغیوں نےایک بس پر خودکار ہتھیاروں سے حملہ کرکے کم از کم 18افراد کو ہلاک کردیا۔
حملہ آور دو موٹر سائیکلوں پر سوار تھے اور واردات کرنے کے بعد موقعے سے فرار ہوگئے۔
تشدد کا یہ واقعہ ایران کی سرحد کے قریب جمعے کی شام اس وقت پیش آیا جب کراچی سے ایران جانے والی ایک بس کے مسافر ضلع تربت کے پہاڑی علاقے میں واقع ایک ہوٹل پر بیٹھے ہوئے تھے کہ دو موٹر سائیکلوں پر سوار چار مسلح افراد وہاں پہنچے اور اُن پر خودکار ہتھیاروں سے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی، جس سے 18افراد موقعے پر ہی ہلاک اوردو زخمی ہوگئے۔
مقامی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ بس کے مسافروں کو انسانی اسمگلر ایران کے راستے یورپی ملکوں کو اسمگل کرنے کی کوشش میں لے جارہے تھے۔ اُن میں اکثریت کا تعلق پنجاب اور خیبر پختونخواہ سے بتایا گیا ہے۔
اسسٹنٹ کمشنر عبدالرزاق ساسولی نے واقعے کو فرقہ وارانہ قرار نہیں دیا جس سے اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ واقع میں بلوچ عسکری تنظیمیں ملوث ہو سکتی ہیں۔
اُنھوں نے بتایا کہ یہ واقعہ ضلع تربت کے دور دراز علاقے میں پیش آیا اور انتظامیہ کے مقامی اہل کاروں کو وہاں بھیج دیا گیا ہے جو زخمیوں اور میتوں کو لائیں گے۔
اُنھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ہلاکتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے واقع کے بعد فوری طور پر ایک بیان جاری کیا ہے جس میں واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔
تربت کے علاقے میں اس سے پہلے بھی دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ گذشتہ فروری میں بھی فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کے نو کارکنوں کو تربت کے علاقے میں فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا گیا تھا۔
حملہ آور دو موٹر سائیکلوں پر سوار تھے اور واردات کرنے کے بعد موقعے سے فرار ہوگئے۔
تشدد کا یہ واقعہ ایران کی سرحد کے قریب جمعے کی شام اس وقت پیش آیا جب کراچی سے ایران جانے والی ایک بس کے مسافر ضلع تربت کے پہاڑی علاقے میں واقع ایک ہوٹل پر بیٹھے ہوئے تھے کہ دو موٹر سائیکلوں پر سوار چار مسلح افراد وہاں پہنچے اور اُن پر خودکار ہتھیاروں سے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی، جس سے 18افراد موقعے پر ہی ہلاک اوردو زخمی ہوگئے۔
مقامی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ بس کے مسافروں کو انسانی اسمگلر ایران کے راستے یورپی ملکوں کو اسمگل کرنے کی کوشش میں لے جارہے تھے۔ اُن میں اکثریت کا تعلق پنجاب اور خیبر پختونخواہ سے بتایا گیا ہے۔
اسسٹنٹ کمشنر عبدالرزاق ساسولی نے واقعے کو فرقہ وارانہ قرار نہیں دیا جس سے اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ واقع میں بلوچ عسکری تنظیمیں ملوث ہو سکتی ہیں۔
اُنھوں نے بتایا کہ یہ واقعہ ضلع تربت کے دور دراز علاقے میں پیش آیا اور انتظامیہ کے مقامی اہل کاروں کو وہاں بھیج دیا گیا ہے جو زخمیوں اور میتوں کو لائیں گے۔
اُنھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ہلاکتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے واقع کے بعد فوری طور پر ایک بیان جاری کیا ہے جس میں واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔
تربت کے علاقے میں اس سے پہلے بھی دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ گذشتہ فروری میں بھی فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کے نو کارکنوں کو تربت کے علاقے میں فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا گیا تھا۔