فوکوشیما جوہری بجلی گھر کی تباہی انسانی غفلت کا نتیجہ

فوکو شمیا جوہری بجلی گھر

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جوہری پلانٹ کے حادثے کو قدرتی آفت کا نام نہیں دیا جاسکتا اور زلزلے اور سونامی کے نقصانات کو انسانی صلاحتیوں کو استعمال میں لاکر کم کیا جاسکتا تھا۔
جاپان کا ایک پارلیمانی پینل اس نتیجے پر پہنچاہے کہ گذشتہ سال فوکوشیما جوہری بجلی گھر کے سانحے میں انسانی ہاتھ شامل تھا ۔

چھ ماہ تک جاری رہنے والی تحقیقات کی بنیاد پر تیار کردہ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ جوہری بجلی گھر کے تحفظ کے سلسلے میں حکومت اور پلانٹ چلانے والی ٹوکیو الیکٹرک پاورکمپنی ، دونوں سے کوتائیاں ہوئیں اور وہ 1986ء میں یوکرین کے چرنوبل پاور پلانٹ کی تباہی کے بعد مستقبل میں اس طرح کے واقعات روکنے کی منصوبہ بندی کرنے میں ناکام رہے۔

چرنوبل پاور پلانٹ کا فضائی منظر



تحقیقاتی پینل کا کہناہے کہ متعلقہ عہدے داروں نے ایسے فیصلے کرنے میں جانتے بوجھتے ہوئے تاخیر کی جن سے فوکو شیما پاور پلانٹ کو گذشتہ سال کے بڑے زلزلے اور اس کے بعد آنے والے سونامی کی تباہ کاریوں سے بچانے میں مدد مل سکتی تھی۔

اب تک منظر عام پر آنے والی اس سخت ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جوہری پلانٹ کے حادثے کو قدرتی آفت کا نام نہیں دیا جاسکتا اور زلزلے اور سونامی کے نقصانات کو انسانی صلاحتیوں کو استعمال میں لاکر کم کیا جاسکتا تھا۔

دوسری جانب حکام نے اس متنازع بجلی گھر کو پہنچنے والے نقصان کے بعد پہلی بار وہاں سے بجلی کی فراہمی شروع کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

ایک اور خبر کے مطابق جاپان کے مغربی حصے میں واقع ایک اور جوہری بجلی گھر سے بھی سونامی کے بعد جانچ پڑتال کے لیے ملک گیر پیمانے پر ایٹمی پاور پلانٹ بند کیے جانے کے بعد پہلی پیدوار شروع کردی گئی ہے ۔

سونامی کے بعد سے جاپان میں بجلی کی قلت شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔