اقوام متحدہ کی جانب سے طے کردہ جنگ بندی، جس کا مقصد لڑائی کے نتیجے میں مشکل میں پھنسے ہوئے لوگوں کو بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی میں مدد دینا ہے، اُس میں اُس وقت دراڑیں پڑیں جب جھڑپیں ہوئیں اور پھر سعودی قیادت والے اتحاد نے فضائی حملے کیے۔
عرب ملکوں کا اتحاد جو یمن کے جلاوطن صدر کا حامی ہے، اُس کےایک ترجمان نے بتایا ہے کہ سعودی قیادت والا گروپ اقوام متحدہ کی جانب سے ہفتے تک جنگ بندی کے اعلان کا پابند نہیں۔
تنازعے میں ملوث دونوں فریق، اہل تشیع سے تعلق رکھنے والے باغی جنھیں ایران اور صدر عبد ربو ہادی منصور کی حمایت حاصل ہے، امن کی کوششوں کو سنجیدگی سے نہ لینے کا الزام ایک دوسرے پر لگاتے ہیں۔
جنگ بندی کا آغاز ہفتے سے ہونا تھا اور مسلمانوں کے متبرک ماہ رمضان کے اختتام تک جاری رہنا تھا، جو 17 جولائی کو متوقع ہے، لیکن دونوں فریق کے مابین شدید لڑائی میں وقفہ نہیں آیا۔
دارالحکومت صنعا میں حوثی اور یمنی فوج کے دستے فضائی حملوں کی زد میں آئے، اور جنگ سے بُری طرح متاثرہ تعز اور عدن کے جنوبی شہروں میں مکینوں کا کہنا ہے کہ بھاری توب خانے سے فائرنگ کا تبالہ ہوا۔
اقوام متحدہ نےمنصور ہادی کی جلاوطن حکومت اور حوثی باغیوں کے درمیان جنگ بندی کے لیے مذاکرات کی بارہا کوششیں کی ہیں۔ حوثیوں نے گذشتہ برس کے اواخر میں ملک کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔
حوثیوں کے خلاف اتحاد جسے سعودی عرب نے منظم کیا تھا، مارچ کے آخر میں اپنے فضائی حملے شروع کیے تھا۔ تب سے، بڑی تعداد میں یمنی خاندان کئی اہم شہروں سے باہر جا چکے ہیں، جو لڑائی کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔