ورلڈ بینک کی ایک نئی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ غزہ کی معیشت ’’تباہی کے دہانے‘‘ پر کھڑی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وہاں بے روزگاری کی شرح دنیا کے تمام ممالک سے زیادہ ہے۔ اس میں اسرائیل اور بین الاقوامی امدادی ادروں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس صورتحال کا تدارک کریں۔
رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ علاقے کے ’’محاصرے، جنگ اور خراب حکمرانی نے غزہ کی پٹی کی معیشت کا گلا گھونٹ دیا ہے۔‘‘ غزہ میں اسلامی شدت پسند گروپ حماس کی حکمرانی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے تنازعات اور پابندیوں کے بغیر غزہ کی مجموعی پیداوار موجودہ پیداوار سے چار گنا زیادہ ہوتی۔ غزہ پر پابندیوں میں 2007 سے جاری علاقے کا محاصرہ بھی شامل ہے۔
اسرائیل اور مصر نے اس وقت غزہ کا محاصرہ شروع کیا تھا جب حماس نے انتخابات میں کامیابی کے بعد تشدد کے ذریعے مغرب کے حمایت یافتہ فلسطینی صدر محمود عباس کی وفادار فورسز سے علاقوں کا قبضہ چھین لیا تھا۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس کو ہتھیار اور عسکری ڈھانچہ تعمیر کرنے سے روکنے کے لیے محاصرہ ضروری ہے، جبکہ اس کے ناقدین کا کہنا ہے کہ محاصرہ اجتماعی سزا کے مترادف ہے۔
غزہ پر قبضے کے بعد سے حماس نے اسرائیل سے تین جنگیں لڑی ہیں، جن میں سے گزشتہ برس لڑی گئی جنگ 50 روز تک جاری رہی۔ اس میں غزہ کی ہزاروں عمارتیں یا تو تباہ ہو گئی تھیں یا انہیں نقصان پہنچا تھا۔
جنگ میں 2,200 سے زائد فلسطینی جن میں عام شہری بھی شامل تھے ہلاک ہو گئے تھے۔ اسرائیل کے 67 فوجی اور چھ شہری ہلاک ہوئے تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی معیشت، خصوصاً زراعت، تعمیر، صنعتکاری اور بجلی کے شعبے جنگ سے بری طرح متاثر ہوئے تھے۔
رپورٹ کے مطابق کہ غزہ کے 18 لاکھ رہائشیوں میں سے 43 فیصد بے روزگار ہیں، جو دنیا میں بے روزگاری کی سب سے زیادہ شرح ہے۔ گزشتہ سال کے آخر میں نوجوانوں میں بےروزگاری 60 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔
رپورٹ میں تنبیہہ کی گئی ہے کہ ’’غزہ کی صورتحال ناقابل برداشت ہے۔‘‘ اس میں کہا گیا ہے کہ اس ساحلی علاقے کی بحالی کا انحصار ناکہ بندی کم کرنے اور امدادی ممالک کی جانب سے گزشتہ برس جنگ کے بعد قاہرہ میں ایک اجلاس میں کیے گئے وعدوں کی پاسداری پر ہے۔