رسائی کے لنکس

صنف نازک یا صنف مضبوط


کسی گہرے اور شدید زخم کی صورت میں خواتین کے زندہ بچنے کا امکان مردوں کے مقابلے میں 14 فی صد زیادہ ہوتا ہے۔

خواتین کو ہر معاشرے میں صنف نازک کہا اور سمجھا جاتا ہے لیکن ایک حالیہ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ کسی گہرے اور شدید زخم کی صورت میں ان کے زندہ بچنے کا امکان مردوں کے مقابلے میں 14 فی صد زیادہ ہوتا ہے۔

امریکہ کی جانزہاپکنز یونیورسٹی کے سکول آف میڈیسن میں سرجری کے پروفیسرڈاکٹر عادل حیدر کہتے ہیں کہ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ عورتیں نازک اور کمزور ہوتی ہیں ، مگر جہاں تک گہرے زخموں اور شدید چوٹوں کا تعلق ہے تو ان میں زندہ بچنے کی صلاحیت مردوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ ان کے اندر موت کے خلاف مزاحمت کا ایک مضبوط قدرتی نظام موجود ہوتا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں بچوں کو جنم دینا اور ان کی پرورش کرنا ہوتی ہے۔ جب کہ قدرت نے مردوں کو اس کام کے لیے نہیں بنایا۔

وہ کہتے ہیں کہ خواتین میں زخموں کا مؤثر اور بہتر طورپر مقابلہ کرنے کی صلاحت ، ان میں موجود ایک خاص ہارمون کے باعث ہوتی ہے جسے ایسٹروجن کہتے ہیں۔ ہنگامی صورت حال میں یہ ہارمون ان کے دفاعی نظام کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

ڈاکٹر عادل حیدر کہتے ہیں کہ امکانی طورپر اسی ہارمون کی وجہ سے ہی خواتین میں بیماریوں کے خلاف مزاحمت کا نظام زیادہ مضبوط ہوتا ہے اور اسی لیے خواتین ہی زیادہ تر lupus جیسے مرض میں مبتلا ہوتی ہیں کیونکہ اس مرض میں جسم کا قدرتی مدافعتی نظام کا ضرورت سے زیادہ متحرک ہوجاتا ہے۔

ہیلتھ نیوز ڈیلی کی رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر حیدر نے بتایا کہ تاہم ابھی یہ تحقیق ہونا باقی ہے کہ خواتین میں شدید زخموں میں زندہ بچ جانے کے اضافی امکان کی وجہ صرف ہارمون ایسٹروجن ہے یا اس میں ٹسٹوسٹرون کا بھی عمل دخل ہے۔ ٹسٹوسٹرون مردوں میں پایا جانے والا ہارمون ہے، جو قلیل مقدار میں خواتین میں بھی موجود ہوتا ہے۔

ڈاکٹر عادل حیدر اور ان کی ٹیم نے اپنی اس تحقیق کے لیے 48 ہزار سے زیادہ شدید زخمیوں کے اعدادو شمار اکھٹے کیے۔ جسے انہوں نے عمر کے لحاظ سے تین گروپوں میں تقسیم کیا۔ پہلے گروپ میں 12 سال سے کم اور 65 برس سے زیادہ عمر کے افراد کورکھا گیا، جن میں عمومی طورپر ہارمون کی سطح کم ہوتی ہے۔

اس تحقیق میں ان زخمیوں کو شامل کیا گیا تھا جس میں زخموں کی شدت کی وجہ سے خون کا دباؤ خطرناک حد تک کم ہوگیا تھا۔ اس کیفیت کو طبی اصطلاح میں traumatic shock کہا جاتا ہے۔

زخموں کی تاب نہ لاکر 12 سال سے کم عمر ہلاک ہونےوالے افراد میں 29 فی صد لڑکے اور 24 فی صد لڑکیاں تھیں۔ جب کہ 13 سے 64 سال کی عمروں کے 34 فی صد مرد اور30 فی صد خواتین ہلاک ہوئیں۔ 65 سال یا اس سے زیادہ عمر کے افراد میں ہلاک ہونے والوں میں 36 فی صد مرد اور 31 فی صد عورتیں تھیں۔

ڈاکٹر حیدر کا کہنا تھا کہ عمر، زخموں کی نوعیت، اقسام اورشدت کے لحاظ سے زندہ بچ جانے والوں میں عورتوں کا تناسب مردوں کے مقابلے میں 14 فی صد زیادہ تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ زخموں کی شدت کا مقابلہ کرنے میں دیگر عوامل کا عمل دخل بھی ہوسکتا ہے ، لیکن تحقیق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں اہم کردار جنس سے متعلق نسوانی ہارمون کا ہے۔

جب کہ دوسری جانب یہ بھی ایک اہم حقیقت ہے کہ خواتین کو درد اور تکلیف کا احساس مردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتاہے۔ اس کی وجہ ان کا قدرتی نظام ہے۔ مثال کے طورپر خواتین کے چہرے کی جلد میں فی مربع سینٹی میٹر محسوس کرنے والے 34 اعصاب ہوتے ہیں جب کہ مردوں میں یہ تعداد صرف 17ہے۔

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG