امریکہ کے مغربی ساحلی علاقے میں ریاست کیلی فورنیا سے لے کر ریاست واشنگٹن اور اس سے بھی آگے 100 سے زیادہ مقامات پر جنگلات اور جھاڑیوں میں لگی ہوئی شدید آگ پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔
جنگلات میں لگی آگ کی زد میں قریب واقع آبادیاں بھی آ رہی ہیں اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق کم ازکم 24 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
آگ سے متاثرہ ریاستوں میں اوریگن بھی شامل ہے جہاں پانچ لاکھ سے زیادہ افراد کسی نہ کسی سطح پر انخلا کے مراحل میں ہیں۔ یہ تعداد ریاست کی کل آبادی کے 10 فی صد سے زیادہ ہے۔
اوریگن میں جنگل کی آگ ہزاروں ایکٹر پر محیط جنگلات جلانے کے ساتھ ساتھ سیکڑوں گھروں کو بھی خاکستر کر چکی ہے۔
بے گھر ہونے والے افراد کو پناہ مہیا کرنے کے لیے پورٹ لینڈ میں واقع کنونشن سینٹر کو پناہ گاہ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
آگ سے بچنے کے لیے اپنا گھر بار چھوڑنے والے بہت سے افراد نے بڑی بڑی پارکنگ لاٹس میں ڈیرے ڈال لیے ہیں۔
اوریگن کے جنوبی حصے میں ہائی وے کے اطراف میں میلوں تک جلی ہوئی آبادیوں کے مناظر دکھائی دے رہے ہیں۔ اوریگن کی گورنر کیٹ براؤن نے کہا ہے کہ درجنوں افراد لاپتا بھی ہیں۔
ریاست کیلی فورنیا کے کئی علاقوں میں صورتِ حال اس سے مختلف نہیں ہے۔ کیلی فورنیا کے گورنر گیون نیوسم نے کہا ہے کہ یہ آب و ہوا کی حقیقی ایمرجنسی کی صورت حال ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں، اگر ہم نے مل کر آب و ہوا کی تبدیلی کا عمل روکنے پر کام نہ کیا تو اس کا سامنا امریکہ بھر میں سب کو کرنا پڑے گا۔
گورنر نے بتایا کہ 68 ہزار سے زیادہ لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑنے کے لیے تیار رہنے کا کہہ دیا گیا ہے۔
کیلی فورنیا کے موریسنا جنگل میں ان دنوں تاریخ کی سب سے شدید آگ لگی ہوئی ہے۔
دھوئیں کے گہرے بادلوں اور جلے ہوئے باریک ذرات نے متاثرہ علاقوں کے ایک بڑے حصے کو اپنی لیپٹ میں لے لیا ہے جس سے صحت کے لیے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔
ان علاقوں میں عہدے دار لوگوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ بلا ضرورت گھر سے باہر نکلنے سے گریز کریں۔
ریاست واشنگٹن کے گورنر جے انسلی نے کہا ہے کہ اس تباہی میں قدرت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ یہ ہمارے اپنے ہاتھوں کی لائی ہوئی تباہی ہے۔ کیوں کہ ہم نے ریاست میں آب و ہوا کو ڈرامائی طور پر تبدیل کر دیا ہے۔
گزشتہ پانچ دنوں کے دوران ریاست واشنگٹن کے جنگلات میں لگی آگ کے جو مناظر دیکھنے میں آ رہے ہیں اس کی نظیر اس سے پہلے نہیں ملتی۔