"وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے سے خواجہ سراؤں کی تحریک کو نقصان پہنچے گا کیوں کہ عدالتی فیصلے کے بعد جو غیر اسلامی، غیر شرعی کا لفظ ہم سے جڑ گیا ہے اس سے ان لوگوں کو جواز مل جائے گا جو پہلے سے ہی ہم پر نشانہ رکھ کر بیٹھے ہیں۔"
یہ کہنا ہے شہزادی رائے کا جو خواجہ سراؤں کے حقوق کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ٹرانسجینڈر ایکٹ سے متعلق وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر وہ نہ صرف خفا ہیں بلکہ سمجھتی ہیں کہ عدالتی فیصلے سے ان کی کمیونٹی کو شدید دھچکا لگا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے شہزادی رائے نے کہا کہ انہیں وفاقی شرعی عدالت کے تفصیلی فیصلے کا انتظار ہے جس کے خلاف اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کیا جائے گا۔
وفاقی شرعی عدالت نے ٹرانسجینڈر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں پر جمعے کو فیصلہ سناتے ہوئے ایکٹ کے سیکشن دو ایف، سیکشن تین اور سات کو خلاف شریعت قرار دیا تھا۔
شرعی عدالت کے قائم مقام چیف جسٹس سید محمد انوار اور جسٹس خادم حسین نے فیصلے میں قرار دیا کہ جنس کا تعین انسان کے محسوسات کی وجہ سے نہیں کیا جاسکتا۔ ٹرانسجینڈر کی جنس کا تعین غالب جسمانی اثرات کی بنیاد پر کیا جائے گا جس پر مرد کے اثرات غالب ہوئے تو وہ مرد خواجہ سرا اور جس پر زنانہ اثرات غالب ہوں اسے عورت خواجہ سرا تصور کیا جائے گا۔
عدالت کے فیصلے میں ایکٹ کے سیکشن سات کے تحت مرضی سے جنس کا تعین کر کے وراثت میں مرضی کا حصہ لینا بھی غیر شرعی قرار دیا گیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا وراثت میں حصہ جنس کی بنیاد پر ہی مل سکتا ہے۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ مرد یا عورت خود کو اپنی بائیو لوجیکل جنس سے ہٹ کر خواجہ سرا کہیں تو یہ غیر شرعی ہوگا۔
خواجہ سرا بل 2018میں جس شق پر سب سے زیادہ اعتراضات اور تحفظات کا اظہار کیا گیا وہ یہ تھا کہ ٹرانس جینڈر کو یہ حق حاصل ہوگا کہ اس کے خیال اور گمان کے مطابق اسے ٹرانسجینڈر تسلیم کیا جائے۔
اس مسئلے کو سب سے زیادہ اجاگر کرنے والوں میں ایک نام جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کا بھی ہے۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو انہوں نے متوازن فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ جن مسائل کی انہوں نے نشاندہی کی تھی انہیں شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں حل کیا ہے۔
سینیٹر مشتاق کے مطابق ٹرانسجینڈر ایکٹ میں بنیادی نکتہ یہی تھا کہ کوئی شخص اپنی جنس تبدیل نہیں کرواسکتا۔ کوئی خواجہ سرا عورت اپنی جنس تبدیل کرواکر خود کو مرد بنا کر وراثت میں مرد کا حصہ لے تو یہ غیر شرعی ہے اسی طرح سے اس ایکٹ سے اسلام میں شرم و حیا، عزت و تکریم و وقار کو خطرہ تب ہوسکتا ہے جب ایک مرد ٹرانس عورت بن کر خواتین کے لیے مختص مقامات اور پرائیویسی کے مقامات پر جائے گا اس کے نتیجے میں جرم کا ارتکاب بھی ہوسکتا ہے اور اس عمل سے خواتین کو بہت سے خطرات درپیش ہوسکتے ہیں۔
تاہم شہزادی رائے سمجھتی ہیں کہ جماعت اسلامی نے الیکشن کے قریب اس بل کو وفاقی شرعی عدالت سے منظور کروا کر اپنا ووٹ بینک بنانے کی کوشش کی ہے۔ کیوں کہ ان کے بقول،پہلے دن سےہی جماعتِ اسلامی نے اس بات پر زور دیا کہ اس ایکٹ سے اسلام کو خطرہ ہے۔
ان کے خیال میں شرعی عدالت کے فیصلے کے بعد جماعتِ اسلامی کو یہ جتانے میں آسانی ہوگی کہ انہوں نے اسلام کو بچایا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا یہ ایکٹ سیاست کی نذر ہوگیا۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے چئیرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز کاکہنا ہے کہ کونسل نے جو نکات نظر ثانی کے لیے اٹھائے تھے خصوصاً اپنی مرضی سے جنس کا تعین کرنا یا تبدیل کرنا اسے عدالت نے کالعدم اور خلاف شریعت قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب ہے اگر کوئی قانون خلاف شریعت ہو تو پھر اسے پاکستانی آئین کے مطابق بھی کالعدم قرار دیا جائے گا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب یہ پارلیمنٹ کا کام ہے کہ ٹرانسجینڈر ایکٹ میں خلافِ شریعت نکات پر کارروائی کرے۔
قبلہ ایاز کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل نے پہلے ہی کہا تھا کہ صنفٖ کا اپنی شناخت کے حساب سے خود فیصلہ کرنا اسلام کے منافی ہے اس سے بہت سے معاشرتی مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں، جیسے جیلوں کے اندر سے شکایات آئیں کچھ تعلیمی اداروں سے شکایات آئیں کہ ایک مرد خود کو عورت ظاہر کر کے خواتین میں موجود رہا۔ اسی طرح کا ایک واقعہ پولیس ٹریننگ میں بھی سامنے آیا جہاں ایک مرد نے خود کو عورت ظاہر کر کے نوکری حاصل کی۔
'ہماری شناخت چھینی جا رہی ہے، چپ نہیں رہ سکتے'
دوسری جانب شہزادی رائے کہتی ہیں گزشتہ دو برسوں سے خواجہ سرا کمیونٹی کے خلاف منظم مہم شروع ہوئی ہے اور کئی مواقع پر دیکھا گیا کہ جب ہماری کمیونٹی کا کوئی فرد مارا جاتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ خواجہ سرا نہیں تھا، یہ غلط کاموں میں ملوث تھا، اس لیے ہم نے مارا۔
انہوں نے کہا کہ شرعی عدالت کے فیصلے سے پہلے ہی ہماری کمیونٹی کا بہت نقصان ہو چکا ہے، ایک مخصوص طبقہ خصوصاً اشرافیہ جو خواجہ سرا کو برداشت نہیں کرتا انہیں اب ہمیں نشانہ بنانے کا ایک قانونی جواز مل جائے گا۔
شہزادی رائے کے مطابق، یہ ہماری زندگی اور وجود کا سوال ہے، ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں اگر ہم چپ چاپ شرعی عدالت کے فیصلے کو قبول کرلیتے ہیں تو یہ تمام خواجہ سراؤں کے حقوق کو دبانے کے مترادف ہوگا۔
ان کے خیال میں خواجہ سرا کمیونٹی کی شناخت چھینی جارہی ہے جس پر چپ نہیں رہ سکتے، اگر یہ فیصلہ برقرار رہتا ہے تو ہم مسلسل اسے چیلنج کرتے رہیں گے۔ کیوں کہ خواج سراؤں کے لیے پہلی قانون سازی پچھتر برسوں میں 2018 میں ہوئی تھی جس نے ہمیں حقوق دیے اس پر ہم ایسے خاموش نہیں بیٹھ سکتے۔
سینیٹر مشتاق احمد خان شرعی عدالت کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فیصلے میں غیر شرعی غیر اسلامی کہنے سے خواجہ سراؤں کی جانوں کو خطرہ ہے تو میں اس سے متفق نہیں ہوں۔ان کےبقول خواجہ سراؤں کے خلاف جو کارروائیاں ہوتی ہیں وہ اس لیے ہوتی ہیں کہ وہ جرائم پیشہ گروہ کے ساتھ رہتے ہیں اس کی وجہ ٹرانس فوبیا نہیں، یہ اسی وجہ سے بھی ہوتا ہے کہ جو مرد ہیں وہ خود کو عورتیں بنا لیتے ہیں جو عورتیں ہیں وہ مرد بن جاتے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں جو لوگ قتل ہوئے ہیں ان کی ایف آئی آر نکالی جائے تو واضح ہوجائے گا کہ ان کا تعلق جرائم سے تھا۔
سینیٹر مشتاق کا کہنا تھا، اگر کوئی اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں جائے گا تو ہم بھی اس فیصلے کو پروٹیکٹ کرنے کے لئے جائیں گے۔ اس فیصلے نے نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام کے لیے ایک مثال قائم کی ہے۔
شہزادی رائے کے مطابق، اس ملک میں بہت سے لوگ خواجہ سراؤں سے خوفزدہ ہیں یہ اس وقت تک خوف میں مبتلا نہیں تھے جب وہ ناچتے گاتے تھے، بھیک مانگتے تھے یا سیکس ورکر تھے۔ جب ہمارے لئے 2018 میں قانون آیا جس کے تحت ہمیں نوکریاں ملیں، ہم ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، ایکٹیوسٹ بنے یہاں تک کہ جب ہم نے سیاست میں قدم رکھا یہ خوف تب سے بڑھا۔
شہزادی رائے کے بقول، "عورتوں کو تو یہ بند کرنے میں ناکام رہے تو انہوں نے سوچا کہ خواجہ سراؤں پر اپنا زور چلائیں، یہ ہمیں جنسی غلام بنانا چاہتے ہیں، ہمیں انسان نہیں سمجھتے یہی وجہ ہے کہ شرعی عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد وہ سوشل میڈیا پر خوشیاں منا رہے ہیں۔"
ڈاکٹر قبلہ ایازکے مطابق شرعی عدالت نے بالخصوص یہ کہا ہے کہ خواجہ سراؤں کے انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے اس میں ہرگز کوئی کوتاہی نہ کی جائے۔ اس معاملے میں اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی یہی کہا ہے کہ اس طبقے کے صحت، روزگار، تعلیم، شناختی کارڈ، حج کرنے کی سہولت، پاسپورٹ کے اجراء ان سب میں کوئی رکاوٹ نہیں آنی چاہیے۔