رسائی کے لنکس

مکیش امبانی کے بھائی انیل امبانی دولت کی دوڑ میں پیچھے کیسے رہ گئے؟


ریلائنس گروپ کے بانی چیئرمین دھیرو بھائی امبانی کے بیٹے مکیش اور انیل امبانی۔ (فائل فوٹو)
ریلائنس گروپ کے بانی چیئرمین دھیرو بھائی امبانی کے بیٹے مکیش اور انیل امبانی۔ (فائل فوٹو)

  • دھیرو بھائی امبانی کے انتقال کے بعد ان کے بیٹوں مکیش اور انیل امبانی میں کاروباری معاملات پر اختلافات کا آغاز ہوا۔
  • 2005 میں مکیش اور انیل امبانی کی والدہ نے دونوں بھائیوں میں کاروبار تقسیم کرنے کا معاہدہ کیا۔
  • ایک وقت آیا کہ انیل امبانی لگ بھگ 42 ارب ڈالر کے اثاثوں کے ساتھ دنیا کے چھٹے امیر ترین شخص بن گئے تھے۔
  • کاروباری مسابقت اور اختلافات کے باوجود 2019 میں مکیش امبانی نے اپنے چھوٹے بھائی کو جیل جانے سے بچایا۔

امیر ترین بھارتی شہری مکیش امبانی کے بیٹے اننت امبانی کی پری ویڈنگ تقریبات کا پوری دنیا میں چرچا رہا۔ ان تقریبات میں بل گیٹس، مارک زکر برگ سمیت دنیا کے امیر ترین افراد شریک ہوئے اور ان تقریبات کی چھوٹی سی چھوٹی تفصیلات کی میڈیا کوریج کی گئی۔

مکیش امبانی اور انیل امبانی بھارت کے معروف صنعت کار دھیرو بھائی امبانی کے بیٹے ہیں۔ دونوں نے ایک کامیاب کاروباری خاندان میں آنکھ کھولی اور ان کے والد ریلائنس گروپ کی صورت میں کامیابی سے چلنے والی صنعتوں کی ایک بہت بڑی بزنس امپائر چھوڑ کر گئے۔

ان کے بڑے بیٹے مکیش امبانی تو دنیا کے 20 امیر ترین افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔ لیکن چھوٹے بیٹے انیل امبانی کا نام اب ارب پتی افراد کی فہرست میں بھی نہیں آتا۔

ایسا نہیں کہ انیل امبانی ہمیشہ سے کاروباری کامیابی کی دوڑ میں پیچھے تھے۔ ایک وقت تھا کہ انیل امبانی 42 ارب ڈالر کے اثاثوں کے ساتھ دنیا کے چھٹے امیر ترین شخص تھے اور ان کے بڑے بھائی مکیش ان سے صرف ایک قدم آگے تھے۔

وہ بھارت کے میڈیا میں ایک اسٹار بزنس مین کے طور پر جانے جاتے تھے۔ بالی وڈ اسٹار امیتابھ بچن اور سماج وادی پارٹی کے رہنما امر سنگھ سے ان کے قریبی تعلقات تھے اور ان کی دی گئی پارٹیاں اور ان میں سپر اسٹارز کی شرکت خبروں کی زینت بنتی تھی۔

لیکن ایسا کیا ہوا جس کی وجہ سے ان کی دولت سمٹ کر اربوں ڈالر سے کروڑوں تک سمٹ گئی؟ اس کہانی کا آغاز ہوتا ہے دھیرو بھائی امبانی کے انتقال کے بعد پیش آنے والے حالات سے۔

دھیرو بھائی امبانی کو کوئی کامیاب کاروبار ورارثت میں نہیں ملا تھا۔ وہ ایک اسکول ٹیچر کے بیٹے تھے اور انہوں نے اپنی محنت سے بہت چھوٹے پیمانے سے کاروربار کا آغاز کر کے ریلائنس بزنس امپائر کھڑی کی۔

سن 2002 میں دھیرو بھائی امبانی کا انتقال ہوا تو ان کے بڑے بیٹے مکیش امبانی ریلائنس انڈسٹریز کے چیئرمین اور مینیجنگ ڈائریکٹر بن گئے اور چھوٹے بھائی انیل امبانی کو گروپ کے نائب صدر کا عہدہ ملا۔

دھیرو بھائی امبانی کو کامیاب کاروبار وراثت میں نہیں ملا تھا بلکہ انہوں نے اپنی محنت سے ریلائنس بزنس امپائر کھڑی کی۔
دھیرو بھائی امبانی کو کامیاب کاروبار وراثت میں نہیں ملا تھا بلکہ انہوں نے اپنی محنت سے ریلائنس بزنس امپائر کھڑی کی۔

والد کے انتقال کے دو برس بعد ہی دونوں بھائیوں کے درمیان کاروباری اختلافات سامنے آںے لگے جس کے بعد 2005 میں مکیش اور انیل امبانی کی والدہ کوکیلا بین امبانی نے دونوں بیٹوں کے درمیان ریلائنس گروپ کی کمپنیوں کو ایک معاہدے کے تحت تقسیم کر دیا۔

اس معاہدے کے بعد بڑے بھائی مکیش امبانی کے حصے میں ریلائنس انڈسٹریز کی پیٹروکیمیکل، تیل اور گیس کی دریافت، ریفائنری اور ٹیکسٹائلز کی روایتی صنعتیں آئیں۔ البتہ اس وقت تک مکیش امبانی ریلائنس ریٹیل کے نام سے اسٹورز کا کام شروع کر چکے تھے جو اس وقت بھارت میں شروع ہونے والا نیا رجحان تھا۔

انیل امبانی کے حصے میں جو کمپنیاں آئیں انہیں قدرے جدید شعبے کہا جا سکتا تھا۔ معاہدے کے نتیجے میں انیل امبانی کو ریلائنس کمیونی کیشن موبائل سروس کمپنی، سرمایہ کاری فرم اور ریلائنس پاور کے نام سے بجلی پیدا کرنے والی کمپنی، انفراسٹرکچر سمیت دیگر کمپنیاں ملیں۔

عروج سے زوال کا سفر

اس بٹوارے کے بعد انیل امبانی نے ٹیلی کمیونی کیشن، فنانس اور پاور کمپنیز کے کاروبار تیزی سے پھیلانا شروع کئے۔ 2008 میں انیل امبانی 42 ارب ڈالر کے اثاثوں کے ساتھ دنیا کے چھٹا امیر ترین شخص قرار پائے اور وہ اس دوڑ میں اپنے بھائی مکیش امبانی سے صرف ایک قدم پیچھے تھے جو دنیا کے پانچویں امیر ترین شخص تھے۔

لیکن 2008 میں انیل امبانی کو پہلا دھچکا اس وقت لگا جب وہ ریلائنس کمیونی کیشن کو جنوبی افریقہ کی ایم ٹی این کمپنی میں ضم ہونے کے لیے جاری مذاکرات میں ناکام ہو گئے۔

انیل امبانی کی ریلائنس کمیونی کیشنز اس وقت بھارت میں موبائل فون سروس مارکیٹ کی سب سے بڑی کمپنی تھی۔ تاہم اپنے بڑھتے قرضوں کا بوجھ کم کرنے کے لیے انیل امبانی ریلائنس کمیونی کیشن کو ایم ٹی این میں ضم کرنا چاہتے تھے۔

دونوں کمپنیوں میں مذاکرات کا آغاز ہونے کے بعد مکیش امبانی نے ریلائنس کمیونی کیشن میں اپنے شیئرز کی بنیاد پر اس ڈیل پر سوالات اٹھا دیے جس کی وجہ سے قانونی پیچیدگیوں کا خدشہ پیدا ہو گیا اور یہ معاہدہ نہیں ہو سکا۔ معاہدے کی یہ ناکامی ریلائنس کمیونی کیشن کے لیے بہت بڑا دھچکا ثابت ہوئی۔

اس کے بعد 2011 میں ٹو جی اسکینڈل سے ریلائنس کمیونی کیشن کو ایک اور بڑا دھچکا لگا۔ یہ اسکینڈل موبائل فون نیٹ ورک کے سیکنڈ جنریشن یعنی ٹو جی لائسنس حاصل کرنے میں ہونے والی بے ضابطگیوں کے بارے میں تھا۔

بھارت کے آڈیٹر جنرل (سی اے جی) کی جانب سے یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ لائسنس دینے کے لیے شفاف انداز میں بولی نہیں لگائی گئی بلکہ بھاری رشوت لے کر سستے داموں لائسنس جاری کیے گئے ہیں۔

رشوت دینے والی کمپنیوں میں سوان کمیونی کیشن کا نام بھی شامل تھا۔ بھارت کے سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) نے یہ الزام عائد کیا کہ یہ کمپنی ریلائنس کمیونی کیشن کے فرنٹ کے طور کام کر رہی تھی اور اس میں ریلائنس کے 10 فی صد سے زیادہ شیئرز بھی تھے جو بھارت میں ٹیلی کوم قوانین کی خلاف ورزی تھی۔

اس اسکینڈل نے ریلائنس کمیونی کیشن کے شیئرز کی قیمتوں کو بری طرح متاثر کیا اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچی۔

سن 2010 میں انیل امبانی کی دولت کا بڑا حصہ فراہم کرنے والی کمپنی ریلائنس پاور بھی شدید مشکلات کا شکار ہو گئی۔

بجلی بنانے والی اس کمپنی کا انحصار مکیش امبانی کی کمپنی سے ملنے والی سستی گیس پر تھا۔ 2005 میں ہونے والے خاندانی معاہدے میں طے پایا تھا کہ مکیش امبانی پاور پلانٹ کے لیے انیل امبانی کو حکومت کی مقرر کردہ قیمتوں سے 44 فی صد کم پر گیس فراہم کریں گے۔

لیکن جب انیل امبانی نے اتر پردیش میں بجلی کے ایک اور پلانٹ کے منصوبے پر کام شروع کیا تو گیس کے نرخ پر دونوں بھائیوں کے درمیان تنازع کھڑا ہو گیا جو عدالت پہنچ گیا۔

سن 2010 میں بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ گیس کی قیمتوں کا تعین کرنا حکومت کا اختیار ہے اور کوئی خاندانی معاہدہ اس اختیار کو ختم نہیں کر سکتا۔ اس فیصلے کے بعد انیل امبانی کے بجلی کے کارخانے بھی مشکلات کا شکار ہو گئے۔

کاروبار کو پہنچنے والے ایک کے بعد ایک دھچکوں کی وجہ سے انیل امبانی کے قرضوں کا بوجھ بھی بڑھنا شروع ہو گیا اور انہیں تین چینی بینکوں سے پرسنل گارنٹی پر 1.2 ارب ڈالر کا قرض لینا پڑا۔ لیکن وہ اس کی ادائیگی بھی نہیں کر سکے۔

انیل امبانی کی ریلائنس کمیونی کیشن مشکلات کا شکار تھی کہ 2016 میں مکیش امبانی نے 'جیو' کے نام سے ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی شروع کر دی۔ جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے 'جیو' نے ٹیلی کوم سیکٹر میں ریلائنس کمیونی کیشن کے حصے کو محض دو فی صد کر دیا۔

ٹیلی کمیونی کیشن کے شعبے میں ناکامی کے ساتھ ساتھ انیل امبانی کو دیگر شعبوں میں بدلتے میں کاروباری ماحول کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ سرمایے کی کمی اور ایندھن کی عدم دست یابی کی وجہ سے انیل امبانی کو ریلائنس پاور کے اثاثے بھی فروخت کرنا پڑے۔

انیل امبانی نے 2015 میں دفاع کے شعبے میں بھی قسمت آزمائی کی اور 20 ارب روپے سے زائد سرمایہ کاری سے 'پپاپوو ڈیفنس اینڈ آف شور انجینئرنگ کمپنی' خریدی۔

تاہم جب اپوزیشن جماعت کانگریس نے فرانس سے رفال جنگی طیاروں کی خریداری میں مبینہ بے ضابطگی پر سوال اٹھائے تو انیل امبانی پر بھی الزام عائد کیا کہ انہیں اس سودے سے فائدہ دیا گیا ہے۔

اس اسکینڈل میں نام آنے کی وجہ سے انیل امبانی کے دفاعی شعبے میں کاروبار کو بھی شدید دھچکا لگا۔

جب مکیش نے انیل کو جیل جانے سے بچایا

دونوں بھائیوں میں کاروباری مسابقت تو جاری رہی لیکن ایک موقع پر مکیش امبانی نے اپنے چھوٹے بھائی کو جیل جانے سے بھی بچایا۔

واجبات کی ادائیگی کے ایک مقدمے میں 2019 میں بھارتی سپریم کورٹ نے انیل امبانی کی ریلائنس کمیونی کیشن کو سوئیڈش ٹیلی کوم کمپنی 'ایرکسن' کو چار ہفتوں میں ساڑھے چار ارب روپے ادا کرنے کا حکم دیا۔

سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ اگر انیل دیے گئے وقت میں واجبات ادا نہیں کرتے تو انہیں توہینِ عدالت کے مقدمے میں تین ماہ جیل کی سزا کاٹنی ہو گی۔

عدالت کی دی ہوئی مہلت ختم ہونے سے ایک دن پہلے مکیش امبانی نے یہ رقم ادا کر کے اپنے بھائی کو جیل جانے سے بچایا۔ انیل امبانی نے اس پر ایک بیان میں اپنے بھائی کا شکریہ بھی ادا کیا۔

مکیش امبانی کی جانب سے ملنے والے اس بیل آؤٹ کے بعد بھی انیل امبانی کی مالی مشکلات کم نہیں ہوئیں اور 2020 میں ایک موقع ایسا بھی آیا جب وہ دنیا میں ارب پتیوں کی فہرست سے نکل گئے۔

اسی سال فروری میں انہوں نے لندن میں ایک چینی بینک کو قرض کی ادائیگی کے مقدمے میں عدالت کے سامنے کہا کہ ان کے اثاثے صفر ہو چکے ہیں۔

اگرچہ ریلائنس کمیونی کیشن کے دیوالیہ ہونے اور قرض کی ادائیگیوں کے لیے ریلائنس پاور کے شیئر فروخت کرنے کے باجود انیل امبانی کے اثاثے صفر نہیں ہوئے ہیں۔

وہ اب بھی ممبئی میں ایک 17 منزلہ مکان، بیش قیمت گاڑیوں، ذاتی طیاروں اور لگژری کشتیوں کے مالک ہیں۔ مختلف اندازوں کے مطابق اب بھی انیل امبانی کے اثاثوں کی قیمت 83 کروڑ ڈالر سے ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کے درمیان ہے۔

سرمایہ کاری اور ایسٹ مینجمنٹ کرنے والی انیل امبانی کی کمپنی اب بھی کاروبار جاری رکھے ہوئے ہے۔

تاہم 2022 میں بھارت میں اسٹاک ایکسچینج ریگولیٹ کرنے والے ادارے ’سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج بورڈ آف انڈیا (سیبی) نے بعض بے ضابطگیوں کی وجہ سے انیل امبانی پر لسٹڈ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل ہونے پر پابندی عائد کردی تھی۔

انیل امبانی نے بڑے انفراسٹرکچر کے منصوبوں، دفاع اور انٹرٹینمنٹ کے شعبوں میں بھی قدم جمانے کی کوشش کی۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایسے کاروباری شعبوں کا انتخاب کیا جن کے لیے بے پناہ سرمایے کی ضرورت ہوتی ہے اور اسی لیے وہ ایک بعد ایک منصوبے میں بھاری قرض لینے پر مجبور ہوئے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ کامیابی سے اپنے کاروباری کریئر کا آغاز کرنے والے انیل امبانی معاشی مینجمنٹ میں ناکامی اور غلط کاروباری فیصلوں کی وجہ سے ترقی کی دوڑ میں اپنے بھائی سے بہت پیچھے رہ گئے۔

فورم

XS
SM
MD
LG