امریکہ نے مشرقی شام میں ایک امدادی قافلے پر اس حملے کا ذمہ دار روس کو قرار دیا ہے جس میں 20 شہری اور شام کی ہلال احمر کا ایک کارکن مارے گئے تھے۔
صدر براک اوباما کے لیے سلامتی کے امور کے نائب مشیر بین روہڈز کا کہنا تھا کہ تمام شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ امدادی قافلے کو ایک فضائی حملے میں نشانہ بنایا گیا اور چونکہ باغیوں کے پاس شام میں کوئی فضائی فورس نہیں، لہذا یہ حملہ شامی حکومت کی فورسز یا ان کی اتحادی روس نے کیا ہوا گا۔
پیر کو حلب شہر کے مغرب میں ہونے والے اس حملے میں تقریباً ایک سو ٹن انتہائی ضروری خوراک اور ادویہ بھی برباد ہو گئیں۔
منگل کو نیویارک میں صحافیوں سے گفتگو میں روہڈز کا کہنا تھا کہ روس یہ عہد کر چکا ہے کہ وہ "ان علاقوں سے اپنے لڑاکا طیاروں کو دور رکھے گا جہاں امدادی سرگرمیاں جاری ہوں گی۔"
ماسکو اور دمشق اس حملے میں ملوث ہونے کی تردید کر چکے ہیں۔ روس کی وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ ایک ساتھ کھڑے 18 بڑے ٹرکوں کا جلا ہوا ملبہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ تباہی آتشزدگی سے ہوئی۔
انسانی ہمدری کی امداد سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے کے ترجمان جینز لائرک نے جنیوا میں بتایا کہ "ہم نے یہ معلوم کر لیا ہے کہ یہ واقعہ آتشزدگی کا نہیں۔"
شام کی فوج نے بھی ترید کی ہے کہ اس کے طیارے اس حملے میں ملوث تھے۔
روسی وزارت خارجہ کے ترجمان ایگور کوناشکوف کے مطابق قافلے کی "نقل و حمل کے بارے میں صرف عسکریت پسندوں کو پتا تھا جن کا اس علاقے پر کنٹرول ہے۔"
اقوام متحدہ نے شام میں تمام امدادی سرگرمیاں عارضی طور پر معطل کرتے ہوئے کہا ہے کہ سلامتی کو صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد ہی انھیں بحال کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔
ادھر منگل کو 20 ممالک اور شام کے بین الاقوامی حمایت یافتہ گروپ کی تنظیموں کا نیویارک میں اجلاس میں ہوا۔ ایک گھںٹے تک جاری رہنے والی بات چیت میں فیصلہ کیا گیا کہ ارکان جمعہ کو دوبارہ جمع ہوں گے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی نے بتایا کہ ارکان نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ہرتشدد کاروائیاں جاری رہنے کے باوجود یہ بہت ضروری ہے کہ ملکی سطح پر اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے امریکہ اور روس کی حمایت سے ہونے والی جنگ بندی کو برقرار رکھا جائے۔