رسائی کے لنکس

پاکستان میں الیکشن: 'خواجہ سراؤں کو صحیح سے شمار نہیں کیا جاتا تو ہم ووٹ کیسے دیں گے'


"میرا شناختی کارڈ تین برس قبل ایکس شںاخت پر بنا تھا لیکن اب جب انتخابات میں ووٹ کے اندراج کے لیے میں نے 8300 پر میسیج کیا تو معلوم ہوا کہ میرا شناختی کارڈ بلاک ہے۔"

یہ کہنا ہے گڑیا مغل کا جو ایک خواجہ سرا ہیں اور اس الیکشن میں ووٹ دینے کا حق استعمال کرنا چاہتی ہیں۔

غلام داؤد کا شناختی کارڈ 2019 میں ایکس (مرد) پر بنا ہوا ہے ان کا نام ووٹر لسٹ میں موجود ہے۔ ان انتخابات میں وہ اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے پرعزم ہیں۔

پاکستان میں انتخابات کا اعلان ہونے کے بعد سے ملک بھر میں سیاسی جماعتیں اپنی مہم تیز کر رہی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق ملک بھر سے 12 کروڑ 86 لاکھ سے زائد ووٹرز الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں جس میں خواتین، مرد، بزرگ اور نوجوان شامل ہیں۔

لیکن خواجہ سرا طبقہ اس بات سے پریشان ہے کہ وہ ملک بھر میں تعداد تو کافی رکھتے ہیں۔ لیکن انہیں کم شمار کیا جاتا ہے۔ انتخابات میں ملک بھر سے صرف تین خواجہ سراؤں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے کاغذات نامزدگی داخل کیے ہیں جن میں اسلام آباد سے ایک اور خیبرپختونخوا سے دو خواجہ سرا میدان میں ہیں۔ اس بار سندھ سے ایک بھی خواجہ سرا کی جانب سے کاغذاتِ نامزدگی داخل نہیں کرائے گئے جس کا الزام خواجہ سرا کمیونٹی سیاسی جماعتوں اور ریاست پر لگاتی ہے۔

"ہماری ٹھیک سے گنتی تو کی جاتی نہیں، ووٹ دینے کا حق دیا نہیں جا رہا تو ہم انتخابات کیسے لڑیں؟"

یہ کہنا ہے بندیا رانا کا جو خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے توانا آواز سمجھی جاتی ہیں۔

کراچی میں 'جینڈر انٹر ایکٹیو الائنس' نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ حالیہ ڈیجیٹل مردم شماری میں سندھ بھر سے خواجہ سراؤں کی تعداد تین ہزار سے زائد بتائی جا رہی ہے جو درست نہیں ہے۔

'تمام خواجہ سراؤں کو رجسٹرڈ نہیں کیا گیا'

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بندیا رانا کا کہنا تھا کہ "ہمارا مطالبہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے جو ووٹنگ رجسٹریشن کی تعداد بتائی ہے اس سے خواجہ سرا کمیونٹی کے رہنما اتفاق نہیں کرتے ہم نے الیکشن کمیشن کو تجویز بھی کیا کہ خواجہ سراؤں کی ووٹنگ رجسڑیشن کے عمل کو دوبارہ کروایا جائے مگر ہمارے مطالبے کو نظر انداز کر دیا گیا جس کی وجہ سے اب خواجہ سرا ووٹنگ رجسٹریشن لسٹ میں موجود نہیں ہیں۔"

بندیا رانا کا مزید کہنا تھا جیسے ہی شریعت کورٹ میں ٹرانس پروٹیکشن ایکٹ 2018 کو چیلنج کیا گیا تو کیس کے دوران ہمارے ایکس کارڈ بننا رک گئے کیوں کہ ہم یہ سوچ رہے تھے کہ الیکشن سے پہلے ہم اپنے کمیونٹی کے ان کارڈز کی تجدید کروا دیں جو پہلے عورتوں اور مردوں کی شناخت پر بنے ہوئے تھے تاکہ وہ ووٹ کا حق استعمال کر سکیں۔ ابھی جب الیکشن کا اعلان ہو گیا ہے تو ہماری کمیونٹی کا جو ڈیٹا تین ہزار کا دیا گیا ہے ہم تو اسے بھی چیلنج کرتے ہیں صرف 18 ہزار تو سندھ سے جینڈر انٹر ایکٹیو الائنس (جیا) سے رجسٹرڈ ہیں تو کیا ہمارے 15 ہزار ووٹ مسترد ہوں گے؟

بندیا رانا کے مطابق "ہم نے خود کو رجسٹرڈ اس لیے نہیں کروایا کیوں کہ ہمارے پہلے ایکس والے کارڈ تو بن جائیں ہم نے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی نادرا کے پاس گئے تو ہمیں کہا گیا کہ ہم نے ایکس کا آپشن ختم کر رکھا ہے۔ یہ ہمارے لیے بہت بڑا مسئلہ ہے یہاں تک کہ جو ہماری ووٹر کمیونٹی ہے جب وہ ووٹ ڈالنے جائے تو ان کے ساتھ پولنگ اسٹاف کا رویہ بھی افسوس ناک ہوتا ہے۔"

'ٹرانس جینڈر اپنی شناخت ثابت کرنے کے لیے روز جیتے اور مرتے ہیں'
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:09 0:00

'ہمارے لوگ تو اس بات سے بھی واقف نہیں کہ ووٹ کیسے ڈالنا ہے'

'سب رنگ سوسائٹی' کی بانی اور خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کامی سد، بندیا رانا سے مختلف بات کرتی ہیں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا 2018 میں جب یہ قانون عمل میں آیا تو کافی لوگوں نے یہ ایکس کارڈ بنوانا شروع کیے۔ یہ کارڈ ابھی بھی بن رہے ہیں۔

اُن کے بقول "درمیان میں ایک دو سال کا وہ وقفہ آیا جس میں ایک سیاسی جماعت نے آواز اٹھائی اور کہا کہ ان کے شناختی کارڈ نہیں بننے چاہیے تو کچھ ماہ کے لیے یہ کارڈ بننا بند ہو گئے تھے جب فیڈرل شریعت کورٹ کا فیصلہ آیا تو میں نے بھی اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ میں اس کی پٹیشنر ہوں جیسے ہی پٹیشن داخل ہوئے تو وفاقی شرعی عدالت کے احکامات معطل ہو گئے۔"

کامی سد کہتی ہیں کہ سپریم کورٹ نے اس پر حکمِ امتناع دیا جس کے بعد خواجہ سرا اپنے کارڈ بنوا سکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے واضح طور پر ہمیں کہا ہے کہ جن بھی افراد کے پاس ایکس کارڈ موجود ہیں وہ ووٹ ڈال سکتے ہیں جو لوگ یہ بات کر رہے ہیں کہ ان کے نام ووٹنگ لسٹ میں موجود نہیں انھوں نے خود کو رجسٹر نہیں کروایا ہو گا۔ ہماری کمیونٹی میں بہت سے خواجہ سرا تو اس بات سے بھی واقف نہیں کہ ووٹ کیسے دینا ہے اور اس کے لیے کیسے رجسٹر ہونا ہے۔

پاکستان میں خواجہ سراؤں کی تعداد کتنی ہے؟

اس پر خواجہ سراؤں کی تنظیموں کی جانب سے الگ الگ دعوی اور اعداد و شمار دیے جاتے ہیں۔ لیکن 2017 میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق ملک بھر میں 21 ہزار 774 خواجہ سرا موجود ہیں۔ جب کہ الیکشن کمیشن کے اکتوبر 2020 میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق رجسٹرڈ خواجہ سرا ووٹرز کی تعداد دو ہزار 538 بتائی جاتی ہے۔

پنجاب سے 1886، سندھ سے 431، خیبر پختونخوا سے 133، بلوچستان سے 81 اور قبائلی علاقوں سے سات ووٹرز رجسٹرڈ ہیں۔ لیکن الیکشن کمیشن کی جانب سے اس وقت خواجہ سراؤں کا جو ڈیٹا سامنے آیا ہے اس کے مطابق ملک بھر سے 3 ہزار 29 خواجہ سرا ووٹر رجسٹرڈ ہیں۔

خواجہ سراؤں کے کیا تحفظات ہیں؟

خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی شہزادی رائے کے مطابق، ریاست کی جانب سے ہی ہمیں پیچھے دھکیلا جارہا ہے کیوں کہ اسی ریاست کے ادارے شریعت کورٹ نے ایک لیٹر نادرا کو بھیجا جو کہ غیر قانونی اور آئین کے خلاف تھا نادرا کو انہوں نے براہِ راست حکم دیا کہ ان کے شناختی کارڈ بلاک کیے جائیں۔ اب جب ووٹنگ رجسٹریشن پوری ہو گئی ہے تو ریاست کی جانب سے ہمیں جان بوجھ کر ووٹنگ رجسٹریشن سے دور رکھا گیا۔

کامی سد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ڈاکٹر سارہ گل کے ساتھ مل کر الیکشن کمیشن کے ساتھ ملاقات میں خواجہ سراؤں کو ووٹنگ کا حق استعمال کرنے میں جو مشکلات درپیش ہیں اس سے آگاہ کیا۔

کامی سد کے مطابق، الیکن کمیشن نے انھیں بتایا کہ ان انتخابات میں پاکستان بھر سے تین ہزار 29 خواجہ سرا ووٹ کا حق استعمال کر سکیں گے۔

'مردم شماری میں خواجہ سراؤں کی گنتی کم کی جاتی ہے'

شہزادی رائے کا کہنا ہے کہ حالیہ مردم شماری میں سندھ بھر سے خواجہ سراؤں کی تعداد تین ہزار ہے لیکن اسی کے برعکس کراچی میں حکومت کے پاس یہ ڈیٹا موجود ہے کہ جو ایچ آئی وی کی ٹیسٹنگ ہوتی ہے اس میں 20 ہزار سے زائد ٹیسٹ ابھی ہو چکے ہیں میں اسی کے لیے کام کرتی ہوں اور ہر شہر میں یہ ٹیسٹ ہوئے ہیں۔

شہزادی کا مزید کہنا تھا کہ 2016 اور 2017 میں انٹیگریٹڈ بائیولوجیکل اینڈ بیحیورل سرویلنس ( آئی بی بی ایس) ہوا تھا جو حکومت ہی کرتی ہے اس میں واضح طور پر تعداد 50 ہزار بتائی گئی جب یہ ڈیٹا اقوامِ متحدہ کو دینا ہو تو ہماری تعداد 50 ہزار ہو جاتی ہے۔ جب مردم شماری ہو تو ہماری تعداد تین ہزار کردی جاتی ہے اس سے تو لگتا ہے کہ یہ ریاست خود ابہام کا شکار ہے۔

کامی سد بھی اس بات سے متفق ہیں ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مختلف طرح کے سروے ہوتے ہیں جن میں ایک مردم شماری جب کہ دوسرا سروے (آئی بی بی ایس) کہلاتا ہے جو ایڈز کے حوالے سے ہوتا ہے وہ بھی سرکاری سطح پر ہی کیا جاتا ہے اس میں ریاست یہ کہتی ہے کہ پاکستان میں 80 سے 90 ہزار ٹرانس جینڈرز موجود ہیں۔ لیکن مردم شماری میں کہا جاتا ہے کہ ملک بھر میں چند ہزار ہی ٹرانس جینڈرز ہیں تو پھر کس سروے کو درست مانا جائے؟

اُن کے بقول "میں سمجھتی ہوں کہ ہم کو صحیح طرح شمار نہیں کیا جاتا کیوں کہ اگر یہ ہماری گنتی درست طریقے سے کریں گے تو انھیں ہمیں مخصوص نشستوں پر لانا پڑے گا تو یہ وہ ہتھکنڈے ہوتے ہیں جو جتنی بھی حکومتیں آئی ہیں وہ ہمیں اختیار نہ دینا پڑے تو وہ ہمارے درست اعداد و شمار نہیں دیتیں۔"

ٹرانس جینڈرز کو کیسے شمار کیا جائے؟

خواتین کے حقوق اور مسائل پر کام کرنے والی رخسانہ شمع نے وائس آف امریکہ سے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ سراوں کو شمار کرنے کا جو طریقہ کار ہے اسے جاننے کے لیے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہمارا سماجی اور معاشرتی رویہ کیا ہے۔

اُن کے بقول بدقسمتی سے ابھی تک ہمارے سماج میں خواجہ سرا طبقے کو اس طرح سے قبول نہیں کیا گیا جس طرح دوسرے لوگوں کو کیا جاتا ہے جس کے سبب خواجہ سرا خود بھی اپنی شناخت چھپانے پر مجبور ہو جاتے ہیں وہ ابھی تک اپنی شناخت ظاہر کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے جو ان کی تعداد کو کم ظاہر کرتی ہے۔

ٹرانس جینڈر ایکٹ کے بعد سے بہت سے خواجہ سراؤں نے خود کو ایکس کے طور پر رجسٹر تو کروایا ہے۔ لیکن اب بھی زیادہ تر افراد رجسٹرڈ نہیں ہیں اور جو تعداد رجسٹرڈ ہے ان میں بہت سے خواجہ سرا مرد کے طور پر ظاہر ہو رہے ہیں وہ ایکس (مرد ) یا ایکس (عورت) کے طور پر بھی رجسٹر نہیں جس کے سبب ان کا ووٹ خواتین اور مردوں کی ووٹ لسٹ میں موجود ہوتا ہے وہ علیحدہ اس لیے نہیں ہو گا کیوں کہ شناختی کارڈ میں ان کی رجسٹریشن اس طرح سے ظاہر ہو رہی ہے۔

اُن کے بقول ہاں اگر وہ ایکس (مرد) اور ایکس (عورت) کے طور پر ہیں تو ان کی ووٹر لسٹ میں شمولیت مرد اور عورت کے خانے میں تب بھی جائے گی۔ ابھی تک الیکشن کمیشن نے ٹوٹل رجسٹرڈ ووٹر میں اس طرح علیحدہ خانے خواجہ سراؤں کے لیے نہیں بنائے اس میں صرف مرد اور عورتوں کے لیے ہی خانے درج ہیں۔

رخسانہ شمع کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو یہ ضرور کرنا چاہیے کہ وہ اس کمیونٹی کی علیحدہ سے نشاندہی کو ووٹر لسٹوں کے اندر بھی مہیا کردے تو اس سے یہ پتا چل جائے گا کہ کون سے حلقے، علاقے، پولنگ اسٹیشن پر ٹرانس جینڈرز افراد، پرسن ود ڈس ایبیلیٹیز (پی ڈبلیو ڈیز) موجود ہیں لیکن ایسا نہیں ہورہا ہے۔ نادرا کے پاس جو ڈیٹا موجود ہے اس میں اس طرح کے علیحدہ خانے بہت آسانی سے ڈالے جا سکتے ہیں لیکن یہ علیحدہ سے نشاندہی الیکشن کمیشن کے الیکٹورل رول میں نہیں ہوتی ہے۔

الیکشن کمیشن سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس مسئلے پر بات کرتے ہوئے کہا گیا کہ خواجہ سراؤں کی مردم شماری کے بعد سے رجسٹرڈ ہونے کے بعد سے ہی ووٹر لسٹ جاری ہوئی ہے۔ بالفرض اگر یہ مان لیا جائے کہ جو تعداد خواجہ سرا کمیونٹی بتا رہی کہ وہ چند ہزار نہیں بلکہ 50 ہزار بھی ہے تو کیا سب ووٹ دینے کے لیے رجسٹرڈ ہیں؟

'ہمیں شمار بھی کریں اور عوامی نمائندگی کا حق بھی دیں'

شہزادی رائے کا کہنا ہے کہ خواجہ سراؤں کے مسائل کی ترجمانی ایک خواجہ سرا سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا۔ لیکن ہم ریاست کے رویے سے مایوس ہیں۔ ویسے تو جمہوریت کی بات کی جاتی ہے تو اس ملک میں بسنے والے خواجہ سراؤں کو کیوں نظر انداز کر دیا جاتا ہے؟ خواتین کے مسائل ہوں یا مزدوروں کے، اقلیت کے مسائل ہوں یا کسی بھی ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی بات ہو ہم سب کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG