رسائی کے لنکس

ایرانی وفد کا دورۂ پاکستان؛ 'اسلام آباد اور تہران کے افغانستان سے متعلق خدشات مشترک ہیں'


ایران کے نمائندۂ خصوصی برائے افغانستان حسن کاظمی وفد کے ہمراہ پاکستان کے دورے پر ہیں۔ ماہرین ایرانی وفد کے دورے کو علاقائی صورتِ حال کے تناظر میں اہمیت کا حامل قرار دے رہے ہیں۔

پاکستانی وزارتِ خارجہ کے مطابق ایرانی وفد نے پیر کو نگراں وزیرِ خارجہ جلیل عباس جیلانی سے ملاقات کی۔ اس سے قبل حسن کاظمی نے افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندۂ خصوصی آصف دُرانی سے بھی ملاقات کی تھی۔

ماہرین کے مطابق پاکستان اور ایران کو شدت پسندی کے مشترکہ خطرات کا سامنا ہے۔ خاص طور پر افغانستان کی صورتِ حال اور وہاں مبینہ طور پر موجود دولتِ اسلامیہ (داعش) اور کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں اسلام آباد اور تہران دونوں کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔

افغانستان میں اگست 2021 میں افغان طالبان کی واپسی کے بعد پاکستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں تیزی آئی ہے۔ دوسری جانب ایران کو بھی افغانستان کی سرزمین مبینہ طور پر ایران مخالف عناصر کے ہاتھوں استعمال ہونے کے خدشات ہیں۔

تین جنوری کو ایران کے شہر کرمان میں ہونے والے ایک خود کش حملے میں 90 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ایرانی حکام کے مطابق اس حملے میں ایک خود کش حملہ آور نے مبینہ طور پر شدت پسند گروپ داعش کے ایک گروپ کے ساتھ اٖفغانستان میں تربیت حاصل کی۔

واضح رہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے کا یقین دلاتی رہی ہے۔ طالبان حکام پاکستان کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے واضح کر چکے ہیں کہ پاکستان میں امن و امان کی ذمے داری حکومتِ پاکستان کی ہے۔

'پاکستان اور ایران کے خدشات مشترکہ ہیں'

افغان اُمور کے ماہر طاہر خان کہتے ہیں کہ ایرانی نمائندۂ خصوصی کی پاکستانی حکام سے ملاقاتوں کا محور اسلام آباد اور تہران کو درپیش سیکیورٹی چیلنجز ہی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ایران اور پاکستان کو افغانستان میں مبینہ طور پر سرگرم عسکریت پسند گروہوں سے خطرہ ہے۔

اُن کے بقول پاک ایران سرحد کے آرپار ہونے والی عسکریت پسندوں کی کارروائیاں بھی دونوں ملکوں کے لیے باعثِ تشویش ہے۔ لہذٰا عسکریت پسندوں سے نمٹنے کے لیے دونوں ملکوں کا باہمی تعاون ضروری ہے۔

طاہر خان کہتے ہیں کہ ایک طرف پاکستان کے لیے ٹی ٹی پی کا خطرہ ہے اور دوسری جانب ایران کے لیے داعش کا ابھرتا ہوا خطرہ ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان مشرکہ چیلنجز پر سفارتی سطح پر تبادلۂ خیال ہوتا رہتا ہے۔ پاکستان کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان آصف درانی بھی ستمبر 2023 میں ایران کا دورہ کر چکے ہیں۔

افغان امور کے ماہر اور صحافی سمیع یوسفزئی کہتے ہیں کہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے اپنے اپنے سیکیورٹی تحفظات ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سمیع یوسفزئی نے کہا کہ پاکستان کا یہ خیال ہے کہ ٹی ٹی پی نہ صرف افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کر رہی ہے بلکہ افغانستان کی طالبان حکومت ٹی ٹی پی کی حمایت بھی کر رہی ہے۔

سمیع یوسفزئی کہتے ہیں کہ داعش کا معاملہ مختلف ہے، افغانستان کی طالبان حکومت کی داعش سے مخاصمت ہے اور افغان طالبان داعش کو خلاف کئی موثر کارروائیاں کر چکے ہیں اور ان کی بڑی مخاصمت ہے۔

سمیع یوسفزئی کہتے ہیں کہ داعش کے بارے میں افغان طالبان کی پالیسی سخت ہے جو ایران کے لیے باعث اطمینان ہے۔ لیکن ٹی ٹی پی کا معاملہ مختلف ہے اور افغان طالبان کی طرف سے ٹی ٹی پی کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی نہ ہونے پر اسلام آباد کابل سے ناراض ہے۔

اُن کے بقول ایران کے افغان طالبان کے ساتھ پاکستان کی نسبت تعلقات بہتر ہیں۔ اگرچہ افغان مہاجرین کو ایران بھی ملک بدر کر رہا ہے۔ لیکن طالبان نے اس معاملے کو اتنا نہیں اٹھایا ہے جتنا وہ پاکستان کے بارے میں آواز بلند کر رہے ہیں۔

دوسری جانب ایران اور پاکستان کو بھی ایک دوسرے سے اپنی اپنی سیکیورٹی کے بارے میں تحفظات ہو سکتے ہیں ایران کو پاکستان میں شدت پسند گروپ جنداللہ کی پاکستان میں موجودگی کے بارے میں خدشات ہیں۔ اسی طور پاکستان کو بھی یہ تحفظات ہیں کہ پاکستان مخالف بلوچ عناصر بھی ایران کے کچھ علاقوں میں موجود ہیں۔

سمیع یوسفزئی کہتے ہیں کہ خطے میں تین اہم معاملات منشیات کی اسمگلنگ، عسکریت پسندوں کی کارروائیوں اور افغان مہاجرین کے معاملات ہیں اور تینوں ممالک خاص طور افغانستان، ایران اور پاکستان کے لیے ان معاملات پر تعاون ضروری ہے۔

حال ہی میں پاکستان کی وزارتِ داخلہ نے پاکستان کی پارلیمان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ میں ایک تحریری بیان میں دعویٰ کیا کہ افغانستان میں اگست 2021 میں افغان طالبان کی عبوری حکومت قائم ہونے کے بعد ٹی ٹی پی کے پاکستان میں حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

وزارتِ داخلہ نے یہ بھی اعتراف کیا کہ شدت پسند گروپ داعش پاکستان میں اپنے قدم جمانے کی کی کوشش کر رہی ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG