موبائل فون سے بنائی گئی ایک ویڈیو جس میں مبینہ طور پر شیعہ میلیشیا اور عراقی فوجیوں کے ہاتھوں ایک لڑکے کی موت کی تفصیلی عکس بندی کی گئی ہے انٹرنیٹ پر منظرعام پر آئی ہے۔
ابھی تک اس ویڈیو کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی تاہم اس سفاکانہ قتل نے سوشل میڈیا پر شدت پسند گروپ داعش کے پیروکاروں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا ہے۔ اس ویڈیو کے منظرِعام پر آنے سے عراق میں فرقہ وارانہ تقسیم کو مزید تقویت پہنچنے کا خدشہ ہے۔ اسی تقسیم کی وجہ سے داعش کو عراق کے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کرنے میں مدد ملی۔
امریکی حکام کو خدشہ ہے کہ اس ویڈیو سے پیدا ہونے والے اشتعال سے داعش کو سنی علاقوں پر اپنا تسلط مضبوط کرنے میں مدد ملے گی۔
فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز کے ایک تجزیہ کار اورن اڈاکی نے اس ویڈیو کے بارے میں کہا ہے کہ اس میں کچھ چیزیں بالکل واضح ہیں مگر اس بات کی کوئی تفصیل موجود نہیں کہ یہ واقعہ کب پیش آیا۔
"یہ واضح نہیں کہ قتل کرنے والے عراقی فوج سے تعلق رکھتے ہیں یا شیعہ میلیشیا سے مگر یہ بات بالکل واضح ہے کہ وہ شیعہ ہیں۔ وہ قتل کے بعد ’’لبیک یا زینب‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا تعلق شیعہ مسلک سے ہے۔ زینب امامِ علی کی بیٹی اور امام حسین کی بہن تھیں۔ عراق اور شام میں شیعہ میلیشیاؤں کا یہ عام جنگی نعرہ ہے۔‘‘
ایک منٹ سے کچھ تھوڑی طویل اس ویڈیو میں بظاہر عراقی فوج یا شیعہ میلیشیا سے تعلق رکھنے والے افراد جن میں سے کچھ کے بازؤں پر عراقی جھنڈے دکھائی دے رہے ہیں، ایک لڑکے کے گرد جمع ہیں جس کے ہاتھ پشت پر بندھے ہیں اور وہ زمین پر جھکا ہوا ہے۔
ان میں سے ایک فوجی اس کے منہ پر تھپڑ مارتا ہے، اور سخت برا بھلا کہنے کی آوازیں آتی ہیں۔ کچھ فوجی یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ ’’انہوں نے ہمارا خون بہایا ہے‘‘۔ اس کے بعد قریب ہی فائرنگ کی سی آواز آتی ہے اور سارے فوجی اس لڑکے کے گرد گھیرا بنا لیتے ہیں، اور اپنی مشین گن بلند کرکے اس کے سر میں گولی مار دیتے ہیں۔
یہ ویڈیو پہلے سوشل میڈیا پر یوٹیوب اور فیس بک پر لگائی گئی مگر بعد میں اسے ہٹا دیا گیا۔
عرب میڈیا کے مطابق ہلاک ہونے والے لڑکے کی عمر 11 برس کے قریب ہے اور یہ واقعہ ديالى صوبے کے مشرقی علاقے یا صلاح الدين صوبے کے اسحاقی علاقے میں پیش آیا۔
اورن اڈاکی کے مطابق داعش کے پیروکاروں نے فوراً اس ویڈیو کو ٹویٹر اور دوسرے سوشل میڈیا پر ’’فرقے کی بنیادوں‘‘ پر پھیلانا شروع کر دیا۔ تاہم ابھی تک امریکی محکمہ دفاع کی جانب سے اس ویڈیو کی تصدیق نہیں کی جاسکی۔