رسائی کے لنکس

اہم کیس میں امریکی سپریم کورٹ کا ہم جنس پرستوں کی شادی مخالف ویب ڈیزائنر کی طرف جھکاؤ


جہاں کورٹ کے قدامت پسند ججوں نے لوری سمتھ کے موقف کی حمایت کے اشارے دیے وہیں عدالت کے لبرل ججوں نے کولاراڈو کے دلائل کی جانب جھکاؤ ظاہر کیا۔
جہاں کورٹ کے قدامت پسند ججوں نے لوری سمتھ کے موقف کی حمایت کے اشارے دیے وہیں عدالت کے لبرل ججوں نے کولاراڈو کے دلائل کی جانب جھکاؤ ظاہر کیا۔

امریکہ کی سپریم کورٹ کا پیر کے روز ایک اہم کیس کی سماعت کے دوران ایک قدامت پسند ویب ڈیزائنر کی جانب جھکاؤ واضح رہا جس کا کاروبار ہم جنس پرستوں کو شادی کی خدمات فراہم کرنے سے انکار کرنا ہے۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اس اہم کیس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ امریکہ کی پہلی آئینی ترمیم میں تفویض آزادی اظہار کا قانون فنکاروں کو امتیاز ی سلوک کے خلاف قوانین سے استثنا فراہم کرتا ہے۔

اس کیس کے دوران امریکہ کی سپریم کورٹ نے، جس میں قدامت پسند ججوں کی تعداد کو اکثریت حاصل ہے، دو گھنٹے تک پرجوش دلائل سنے۔ اس کیس میں امریکی شہر ڈینور سے تعلق رکھنے والی ایک کاروبار کی مالک لوری سمتھ کی اپیل کی سماعت کی گئی جو ریاست کولوراڈو کے جنس کی بنیاد پرامتیاز کے قوانین سے استثنا مانگ رہی ہیں۔ ذیلی عدالتوں میں فیصلہ ریاست کولوراڈو کے حق میں دیا گیا تھا۔

لوری سمتھ 303 کرئیٹو نامی ڈیزائنر کاروبار چلاتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ کولوراڈو کے امتیازی سلوک کے خلاف قوانین فنکاروں بشمول ویب ڈیزائنرز کے امریکی آئین میں تفویض کردہ آزادی اظہار کے حقوق کے منافی ہیں ۔

لوری سمتھ کا کہنا ہے کہ وہ اعتقاد رکھتی ہیں کہ شادی صرف مخالف جنسوں کے درمیان ہو سکتی ہے ۔ انہوں نے کولوراڈو کے سول رائٹس کمیشن اور دوسرے ریاستی اہلکاروں پر خود کیس کیا کیونکہ انہیں خوف تھا کہ ہم جنس پرستوں کی شادیوں میں خدمات سے انکار پر انہیں سزا دی جا سکتی ہے۔

جہاں کورٹ کے قدامت پسند ججوں نے لوری سمتھ کے موقف کی حمایت کے اشارے دیے، وہیں عدالت کے لبرل ججوں نے کولوراڈو کے دلائل کی جانب جھکاؤ ظاہر کیا۔

قدامت پسند جج سیموئیل الیٹو نے سوال اٹھایا کہ کیا کسی کو شادی کے ایسے وعدے لکھنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے جو ایسی چیزوں کے بارے میں ہوں جن سے وہ نفرت کرتے ہوں؟

جب کہ لبرل ججوں نے لوری سمتھ کی وکیل کرسٹین ویگنور سے سخت سوالات پوچھے۔ جسٹس سونیا سوٹومایور نے کہا کہ لوری سمتھ کے حق میں فیصلے سے ان جیسے کاروبار وں کو یہ بھی حق حاصل ہوجائے گا کہ وہ مختلف نسلوں کے درمیان یا معذور افراد کی شادیوں میں خدمات سے بھی انکار کر سکیں اگر انہیں اس پر اعتراض ہو۔

انہوں نے پوچھا کہ اس سلسلے میں حدود کہاں متعین کی جا سکتی ہیں؟

انہوں نے کہا کہ اس قسم کا فیصلہ امریکی سپریم کورٹ کی تاریخ میں پہلا فیصلہ ہوگا جہاں کسی بھی کاروبار کو جو عام عوام کے لیے کھلا ہے یہ اجازت دی جائے کہ وہ کسی بھی صارف کو اس کی نسل، جنس، مذہب یا جنسی شناخت کی بنیاد پر خدمت دینے سے انکار کرسکے۔

اس دوران سپریم کورٹ کے باہر مظاہرے کیے گئے۔ مظاہرے میں شریک ریاست اوکلاہوما سے تعلق رکھنے والے ری پبلکن سینیٹر جیمز لینک فرڈ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ کیس ان لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرے گا جنہیں امتیازی برتاؤ کا سامنا ہے۔ اس کیس کے ذریعے ہر فرد کو یہ حق ہوگا کہ وہ اپنا نقطہ نظر رکھ سکے اور اس کے مطابق اپنی زندگی گزار سکے۔‘‘

جب کہ اس دوران بعض ایل جی بی ٹی کیو حقوق کے کارکن بھی سپریم کورٹ کے باہر موجود تھے۔ آور رائٹس ڈی سی نامی ادارے سے تعلق رکھنے والی حقوق کی کارکن سیڈی نوکس نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ کیس مذہبی اعتقادات کے بل پر ہم جنس پرست برادری کے خلاف تفریق پیدا کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تقریر کی آزادی کا مطلب لوگوں پر ظلم نہیں ہو سکتا۔ آپ کا یہ حق ہے کہ آپ اعتقاد رکھیں اور اس کا اظہار کریں۔ لیکن جب آپ یہ قانون بنا دیں کہ آپ کے اعتقادات کا دوسروں کے بل پر احترام کیا جائے تو پھر یہ آزادی اظہار کا معاملہ نہیں رہتا، جب یہ برابری اور عدل پر مبنی نہ ہو۔

اس کیس کا فیصلہ آئندہ برس جون میں متوقع ہے۔

اس رپورٹ کے لیے کچھ مواد رائٹرز سے لیا گیا۔

XS
SM
MD
LG