امریکی فوج کی طرف سے کی جانے والی تحقیقات کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ مارچ میں کی گئی فضائی کارروائی کے بعد ہونے والے ایک دھماکے سے عراق کے شہر موصل میں ایک سو سے زائد عام شہری ہلاک ہوئے۔
مشرق وسطیٰ میں امریکی فوج کے آپریشن کی ذمہ دار امریکہ کی سینٹرل کمانڈ نے جمعرات کو کہا کہ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ داعش کے جنگجوؤں نے ایک عمارت میں "بڑی مقدار میں" دھماکہ مواد ذخیرہ کیا تھا، جہاں عام شہری بھی مقیم تھے اور اس کے بعد جنگجوؤں نے اس عمارت سے عراقی فورسز پر حملے شروع کر دیئے۔
اس کے بعد جب اتحادی فورس نے چھت سے فائرنگ کرنے والے جنگجوؤں کو نشانہ بنایا تو ذخیرہ کیے گئے بارودی مواد میں دھماکا ہوا جس سے عمارت میں موجود 101 عام شہری ہلاک ہو گئے۔
امریکہ کی سینٹرل کمانڈ نے جمعرات کو کہا کہ "ہتھیاروں اور عمارتوں کے ماہرین بڑے پیمانے پر ماڈل بنا کر اس نتیجے پر پہنچے کہ عمارت کے جس حصہ کو نقصان پہنچا وہ اس جگہ سے مختلف تھی" جہاں فضائی کارروائی کی گئی اور یہ نقصان اس سے زیادہ تھا جو اس کارروائی کی وجہ سے ہونا چاہیئے تھا۔
سینڑل کمانڈ نے کہا کہ یہ بات نا تو امریکی قیادت کے اتحاد اور ناہی عراقی فورسز کے علم میں تھی کہ اس عمارت میں عام شہریوں نے پناہ لی ہوئی ہے۔
عراق میں متحدہ زمینی فورسز کی کمانڈر میجر جنرل جو مارٹن نے کہا کہ "ہم ان سب لوگوں سے تعزیت کرتے ہیں جو اس سے متاثر ہوئے۔"
دوسری طرف پینٹاگون نے عراق کے شمالی شہر موصل میں عام شہریوں کی ہلاکت کو ایک المیہ قرار دیا ہے۔
اس فضائی کارروائی کے تھوڑی دیر کے بعد ہی امریکہ کی وزیر دفاع جم میٹس نے کہا تھا کہ "ہم جانی نقصان کو کم کرنے کے لیے ہر ممکن وہ کوشش کرتے ہیں جو انسانی طور پر ممکن ہے۔"
اس فضائی کارروائی کے وقت عراق فورسز نے شواہد کے حوالے سے بتایا تھا کہ داعش کے جنگجوؤں نے اس جگہ دھماکہ خیز مواد رکھا ہے۔
امریکی عہدیداروں نے وی او اے کو بتایا ہے کہ امریکہ کی فوج ایک عمارت کو اس طرح نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے کہ اس کی نواح میں واقع (عمارتو ں) کو کوئی نقصان نا ہو۔