ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کی تصدیق نہیں کر سکتی کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کی طرف سے سفری پابندی کے شکار ایرانی جنرل نے رواں ہفتہ روس کا دورہ کیا تھا یا نہیں۔
امریکی کانگرس کے بعض اہم ارکان اور ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی نے یہ دورہ کیا تھا۔
وائس آف امریکہ کی فارسی سروس کی طرف سے ای میل پر اس بابت استفسار کے جواب میں امریکہ کے محکمہ خارجہ کے عہدیدار نے نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر بتایا کہ انتظامیہ ذرائع ابلاغ میں سامنے آنے والی ان اطلاعات سے آگاہ ہے کہ ایران کی پاسداران انقلاب کور کے خصوصی آپریشن "قدس فورس" کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی مبینہ طور پر روس گئے تھے۔
تاہم امریکی عہدیدار نے کہا کہ "اس وقت ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ خود سے اس دورے کی تصدیق کر سکیں۔ "
"اس طرح کے سفر کے بارے میں سابقہ اطلاعات کی طرح سلیمانی پر اقوام متحدہ کی سفری پابندی موثر رہیں گی۔ اس لیے اس طرح کے سفر کی اگر تصدیق ہو جاتی ہے تو یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہو گی۔ یہ امریکہ اور سلامتی کونسل کے ارکان کے لیے انتہائی تشویش کی بات ہے۔"
دوسری طرف ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ ایڈ رائس نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے جمعرات کو امریکی ٹی وی چینل فاکس نیوز سے اس بارے میں گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ "ایرانی جنرل کو موجودہ سفری پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے روس میں دیکھا گیا۔"
ایک دن قبل فاکس نیوز پر " کئی مغربی انٹیلی جنس عہدیداروں جو (سلیمانی کے) دورے سے آگاہ ہیں"، کے حوالے سے بتایا گیا کہ ایرانی جنرل "ماسکو کے باہر واقع ونکووو کے ہوائی اڈے کے ٹرمینل اے پر 14 فروری کو ایک پرواز کے ذریعے پہنچے تھے۔۔۔ اور روس میں ملاقاتوں کے لیے ان کا چند روز کے لیے قیام کرنے کا ارادہ تھا۔"
رائس نے کہا کہ "ایسا تیسری بار ہوا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 منظور ہونے کے بعد روس کا دورہ کیا گیا اس قرارداد کے تحت 20 جولائی 2015ء کو ایران کے عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے کی توثیق کی گئی تھی۔
رائس کے ایک ترجمان نے وائس آف امریکہ کی اس ای میل کو جواب نہیں دیا جس میں رائس کی ایرانی جنرل سے متعلق معلومات کے ذرائع کے بارے میں ان سے استفسار کیا گیا تھا۔ رائس جنرل سلیمانی پر الزام عائد کرتے ہیں کہ انہوں نے قدس فورس کی قیادت کرتے ہوئے عراق کے امریکہ مخالف شیعہ عسکریت پسندوں کو اسلحہ فراہم کی کوشش کی اور اس وجہ سے وہ امریکی فوج کے تقریباً پانچ سو اہل کاروں کی ہلاکت کے ذمہ دار ہیں۔
رائس نے ٹرمپ انتظامیہ سے سلیمانی کے اس مبینہ روسی دورے کے بعد ایران پر مزید تعزیرات عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
قبل ازیں رواں ماہ ٹرمپ انتظامیہ نے ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد پہلی بار ایران کی طرف سے 29 جنوری کو بلیسٹک میزائل کے تجربہ کے ردعمل میں اس پر تعزیرات عائد کی تھیں۔
ان تعزیرات کے تحت 13 ایرانی شخصیات اور 12 کمپنیوں کے امریکہ میں اثاثے اور املاک کو منجمد کر دیا گیا تھا۔ واشنگٹن نے ایران کے اس میزائل تجربے پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے امریکی شہریوں کی زندگیوں اور خطے کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
تاہم ایران کے خلاف نئی تعزیرات عائد کرنے کے مطالبے پر وائٹ ہاؤس کی طرف سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
دوسری طرف ایران کی وزارت دفاع کی طرف سے جنرل سلیمانی کے ماسکو میں پہنچنے کی اطلاعات کے دو روز بعدایسی تصاویر شائع کی گئی ہیں جن میں سلیمانی کو جمعرات کو تہران میں ایک تقریب میں شرکت کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
ویب سائیٹ نے یہ تصاویر شائع کرتے ہوئے کہا کہ اس نے یہ تصاویر جنرل کے بارے میں "امریکی دعوؤں کے ردعمل میں پوسٹ کی ہیں۔ تاہم بعد میں یہ تحریر ہٹا دی گئی۔
واشنگٹن میں روسی سفارت خانے نے وائس آف امریکہ کے اس استفسار کا کوئی جواب نہیں دیا کہ کیا سلیمانی نے رواں ہفتے ماسکو کا دورہ کیا تھا یا نہیں۔
روس اور ایران سلیمانی کے مبینہ دورہ ماسکو کے بارے میں پہلے سامنے آنے والی اطلاعات کی تردید کر چکے ہیں۔