رسائی کے لنکس

اسرائیل کے لیے امریکی حمایت برقرار، لیکن اختلافی بیانیے میں بھی شدت


فائل فوٹو،
فائل فوٹو،

اسرائیل کی غیر متزلزل سیاسی حمایت دہائیوں سے امریکہ کی خارجہ پالیسی کے بنیادی اصولوں میں شامل ہے۔ لیکن حماس اور اسرائیلی فورسز کے درمیان رواں ہفتے 2014 کے بعد سے اب تک کے شدید ترین تصادم کے دوران اس حمایت میں دراڑیں پڑتی نظر آتی ہیں۔

امریکہ میں بعض ڈیموکریٹک سیاست دان غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے حملوں پر آواز اٹھا رہے ہیں۔ اب تک ان حملوں میں 100 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔

دوسری جانب ری پبلکن اراکین اسرائیل کی حمایت میں یک آواز ہیں۔ حماس کے اسرائیل پر میزائل حملوں میں اب تک سات اسرائیلی ہلاک ہوئے ہیں۔

وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں امریکی حکام اسرائیلی، فلسطینی اور خطے کے عرب رہنماؤں کو 25 سے زائد فون کالز کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ نے سیز فائر کی کوششوں کے لیے اپنا ایک خصوصی نمائندہ بھی اسرائیل بھیجا ہے۔

صدر بائیڈن نے اسرائیل کے وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو سے ٹیلی فون پر بات کی ہے جس کے بعد ان کا کہنا تھا کہ "مجھے توقع اور امید ہے کہ یہ معاملہ جلد از جلد ختم ہو جائے گا۔ اسرائیل اپنے دفاع کا پورا حق رکھتا ہے خاص طور پر ایسے وقت میں جب ہزاروں راکٹوں کا رخ آپ کی فضائی حدود کی جانب ہو۔"

اپنے بیان میں صدر بائیڈن نے اسرائیلی کارروائیوں پر تنقید نہیں کی۔ البتہ وائٹ ہاؤس کے مطابق اسرائیلی وزیرِ اعظم سے گفتگو میں امریکی صدر نے یروشلم کے بارے میں اس عزم کا اظہار کیا کہ "دنیا بھر میں اہلِ مذہب کے لیے اتنی اہمیت رکھنے والے شہر کو جائے امن ہونا چاہیے۔"

اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان حالیہ تنازع کا محور تاریخی شہر یروشلم ہے۔ فلسطینی ان یہودی آبادکاروں پر برہم ہیں جو عربوں کے گھر اور علاقے حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ فلسطینی یہ امید رکھتے ہیں کہ ایک دن وہ اس شہر کے مشرقی حصے کو اپنا دارالحکومت بنالیں گے۔

کانگریس میں ڈیموکریٹس کے اہم نمائندے اسرائیل کے اپنا دفاع کرنے کے حق کی حمایت کرتے ہیں۔

امریکہ نے حالیہ برسوں میں اسرائیل کو چار ارب ڈالر کی فوجی امداد دی ہے اور مزید آٹھ ارب ڈالر کے قرضوں کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم تصور کرتے ہیں۔

امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے خارجہ تعلقات کے چیئرمین اور ریاست نیوجرسی سے منتخب سینیٹر رابرٹ میننڈیز نے رواں ہفتے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ "حماس کی جانب سے راکٹ حملے دہشت گردی ہیں اور دنیا کا کوئی ملک اپنی آبادی کو لاحق ایسا خطرہ برداشت نہیں کر سکتا۔ اس شرم ناک عمل نے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کی سلامتی اور تحفظ کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔"

لیکن کانگریس میں ڈیموکریٹس کے بعض دیگر ارکان نے اسرائیلی حملوں کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔

ریاست وسکونسن سے ایوانِ نمائندگان کے رکن مارک پوکن نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ہم صرف حماس کے فائر کیے گئے راکٹوں کی مذمت کرتے ہوئے اسرائیلی پولیس کے فلسطینیوں کے خلاف تشدد بشمول غیر قانونی بے دخلی، مظاہرین پر پرتشدد حملوں اور فلسطینی بچوں کے قتل کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ امریکہ کو اس تشدد کی مالی معاونت نہیں کرنی چاہیے۔

حماس اور اسرائیل کے درمیان لڑائی بائیڈن حکومت کے لیے چیلنج
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:09 0:00

خاتون رکن کانگریس الیگزینڈریا اوکاسیو کارٹیز نے اپنی دو ڈیموکریٹ ساتھیوں راشدہ طلیب اور الہان عمر کے ساتھ اس تنازع میں دونوں فریقین کو موردِ الزام ٹھہرانے کے بجائے اسرائیلی جارحیت پر تنقید کی ہے۔

اوکاسیو کارٹیز نے گزشتہ ہفتے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ "ہم مشرقی یروشلم میں شیخ جراح کے فلسطینی رہائشیوں کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کرتے ہیں۔ اسرائیلی فورسز فلسطینی خاندانوں کو رمضان کے دوران ان کے گھروں سے بے دخل کر رہی ہیں اور تشدد کا استعمال کر رہی ہیں۔"

’چالیس سال میں پہلی بار‘

عرب امریکن انسٹی ٹیوٹ کے صدر جیمز زاگبی نے اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ "مجھے ان امور پر کام کرتے ہوئے کم و بیش 40 سال ہو چکے ہیں۔ میں نے کبھی اس بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت نہیں دیکھی۔"

ڈیموکریٹ رکنِ کانگریس جمال باؤمین بھی جنہوں نے نیویارک میں اسرائیل کے ایک سرگرم حامی امیدوار کو انتخابات میں شکست دی تھی، حماس کے راکٹ حملوں کی مذمت کرتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی بے دخلی اور حماس کے زیرِ انتظام غزہ میں اسرائیلی فضائی حملوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

اپنے ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ نسلوں سے ان گھروں میں بسنے والے خاندانوں کو وہاں سے بے دخل کرنا امن کے لیے کیا گیا اقدام نہیں ہے۔

جمال باؤمین نے کہا کہ "عبادت کے دوران طاقت کا مظاہرہ امن کا اقدام نہیں۔ مقدس مقامات کو تباہ کرنا امن کا اقدام نہیں۔ حماس کے راکٹ حملے امن کا اقدام نہیں۔ اسرائیلی حکومت کے فضائی حملے بھی امن کا اقدام نہیں۔"

البتہ ری پبلکن پارٹی کی جانب سے اسرائیل کی بھرپور حمایت برقرار ہے۔ امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے اور عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے معاہدوں میں کلیدی کردار ادا کرنے والے امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس اور اسرائیل کے حالیہ تنازع میں صدر بائیڈن کے ردِ عمل پر تنقید کی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن کی کمزوری اور اسرائیل کی حمایت میں کمی سے ہمارے اتحادی پر نئے حملے ہوں گے۔

ادھر ری پبلکن نیشنل کمیٹی کی سربراہ رونا مک ڈینیئل نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ "ری پبلکن جماعت اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہے جو تشدد اور حماس کے راکٹ حملوں کے خلاف دفاع کا حق رکھتا ہے۔"

صدر بائیڈن کے نام خط

سینیٹ میں لگ بھگ سبھی ری پبلکن اراکین نے صدر بائیڈن پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل کے دفاع کے حق کی "دو ٹوک" حمایت کریں اور ایران کے ساتھ جوہری پروگرام سے متعلق عائد معاشی پابندیوں میں ریلیف پر ہونے والے بات چیت "فی الفور" ختم کریں۔

ری پبلکنز کا کہنا ہے کہ ایران اسرائیل کے خلاف حماس کی دہشت گرد سرگرمیوں میں "مدد" کر رہا ہے۔

صدر بائیڈن کے نام 44 ری پبلکن سینیٹرز نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ "چند روز سے غزہ کے فلسطینی دہشت گردوں نے، جنہیں ایران فنڈنگ کرتا ہے، اسرائیل پر راکٹ حملوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔"

خط میں لکھا گیا ہے کہ اسرائیل کے خلاف حماس کے حالیہ حملوں کی روشنی میں تہران کو جواب دہ بنانے کے لیے امریکہ کو تمام ضروری قدم اٹھانے چاہئیں اور کسی بھی صورت ایران کو پابندیوں سے ریلیف فراہم نہیں کرنا چاہیے۔

سینیٹرز کا کہنا ہے کہ یہ بات خاص طور پر اہم ہے کہ ایران نے خطے میں امریکہ کے قریب ترین اتحادی اسرائیل کے خلاف دہشت گرد سرگرمیوں میں مدد کی ہے۔

XS
SM
MD
LG