کیا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران صدر اوبامہ اور ایرانی صدر حسن روحانی کی اتفاقاً ملاقات کا امکان ہے؟
اس عنوان سے ’کرسچن سائینس مانٹر‘ میں سکاٹ پیٹرسن رقمطراز ہیں کہ مرکز کی طرف جُھکاؤ رکھنے والے مسٹر روحانی کے اقوام متحدہ کے دورے سےقبل، ایرانی حکومت نے مصالحت اور معقولیت کا لہجہ اختیار کر رکھا ہے۔
پچھلے ہفتے مسٹر روحانی نے توانائی کی پیداوار کے لئے ایرانی جوہری پروگرام کو جاری رکھنے کا موٴقّف ضرور دُہرایا۔ لیکن، تعطل کے شکار مذاکرات میں نئے قدم اُٹھانے پر بھی زور دیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی دائرہٴکار میں رہتے ہوئے ایران اس جوہری بُحران کا جلد سے جلد حل کا متمنّی ہے۔ اسی طرح، ایران کے جوہری سربراہ اکبر صالحی نے پیر کو ویانا میں اقوام متحدہ کے نگراں ادارے کو بتایا کہ ایران جوہری تنازعے کو ختم کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اور اب کی بار ہم اس کے لئے بھر پور عزم لے کر آئے ہیں۔ یہ موقف سابق صدر محمود احمدی نژاد کے سالہا سال کے جھگڑالو لہجے کے بالکل اُلٹ ہے۔
مسٹر اوبامہ اور مسٹر روحانی کے مابین خطوں کا تبادلہ ہوا ہے، جو غیر معمولی بات ہے۔
بلکہ، مسٹر اوبامہ نے ’اے بی سی ٹیلی وژن‘ کو بتایا ہے کہ انہوں نے مسٹر روحانی سے رابطہ کرکے انہیں بتایا ہے کہ ایران شام کے بُحران کو حل کرنے میں شائد ایک کردار ادا کرے۔ جس سے یہ قیاس آرائیاں جنم لے رہی ہیں کہ شائد اگلے ہفتے نیویارک میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران دونوں صدور کا اتّفاق سے ایک دوسرے سے آمنا سامنا ہو جائے۔ اگر ایسا ہوا تو سنہ 1979 کے اُس اسلامی انقلاب کے بعد۔ جب سے باہمی تعلقات کشیدہ ہیں، دونوں ملکوں کے صدور کے مابین ایسا پہلی بار ہوگا۔
امریکی محکمہٴ خارجہ کے ایک سابق خصو صی مشیر، رابرٹ آئن ہارن کہتے ہیں کہ سابق ایرانی حکومت جوہری تنازعہ حل کرنے میں مخلص نہیں تھی جب کہ موجودہ قیادت اس سے بالکل مختلف ہے، جو حقیقت پسند ہے اور جسے اپنی اقتصادی مشکل کے بارے میں کوئی خوش فہمی نہیں ہے۔
کیا ایران کے ساتھ اس سلسلے میں پیشرفت ممکن ہے؟
کانگریشنل ریسرچ سروس کے ایک محقق، کینیتھ کازمن اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ مسٹر اوبامہ کے پاس تعزیرات میں نرمی کرکے ایران کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لئے عاملہ کے زیادہ اختیارات ہیں، جن کی بدولت، وہ مذکرات کے دوران، بعض تعزیرات میں چھوٹ دے سکتے ہیں۔ باوجودیکہ، بعض دوسری تعزیرات کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لئے کانگریس کی منظوری ضروری ہے، جس میں وقت لگتا ہے۔
وڈرو ولسن سنٹر کے وسط مشرق پروگرام کے ڈئرکٹر، صالح اسفندیاری کہتے ہیں کہ مسٹر روحانی سے معجزوں کی توقع نہیں کرنی چاہئے۔ لیکن، اس چیز کا اچھا امکان ہے کہ وہ ایران کو معقول راستے پر واپس لے آئیں۔
گذشتہ پیر کے روز، یہاں واشنگٹن کے نیوی یارڈ میں کام کرنے والے ایک مسلّح شحص کے ہاتھوں 12 افراد کے قتل عام کے بعد، امریکہ میں گن کنٹرول کے قوانین کو زیادہ کڑا کرنے کی ضرورت پر بحث مزید تند ہو گئی ہے۔ ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے مطابق، وہائٹ ہاؤس نے ری پبلکن پارٹی پر پھر یہ الزم لگایا ہے کہ وُہ اس کے لئے ضروری قوانین مرتب کرنے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اس سے قبل، نیو ٹاؤن کنیٹی کٹ میں ایسے ہی ایک قتل عام میں 27 افراد کی ہلاکت کے بعد، صدر اوبامہ نےگن کنٹرول کے قوانین کو سخت کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن، نیشنل رائفل ایسوسی ایشن نے اُسے اپنے حامیوں کی مدد سے ناکام بنا دیا تھا۔
اور، اخبار ’انڈیاناپُلِس سٹار‘ کہتا ہے کہ اسلحہ بنانے والوں کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ بچوں کا قتل عام جاری ہے اور اسلحے سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن، یہ لوگ ٹس سے مس نہیں ہوتے اور اُنہیں معلوم کہ سیاست کیسے کرنی چاہئے۔
اخبار کہتا ہے کہ ہم میں سے جو لوگ اسلحے پر کنٹرول کے حامی ہیں، پُرانی طرز کی دُنیا کے ساتھ اُن کی اور اُن کے مخالفین کی وابستگی مشترک ہے۔ اور ہم پر ایک دوسرے کو محفوظ رکھنے کا فرض عائد ہوتا ہے۔ لیکن، اگر ہم لوگ ایک ایسے معاشرے میں بدل جائیں جس میں ہرشخص کو مسلّح کرنا لازمی ہو جائے، تو پھر ہم سب سے زیادہ اہم اساسی اور بنیادی آزادی سے محروم ہوجائیں گے۔
’بلوم برگ بزنس ویک نیوز‘ کے مطابق، پچھلے سال امریکہ کا غریب طبقہ کم و بیش پہلے ہی کی طرح، ریکارڈ سطح پر تھا۔ اور غریب گھرانوں کی آمدنیوں میں کمی واقع ہوئی۔ البتہ، صحت کی نگہداشت کے بیمے سے محروم لوگوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی۔ غُربت کا مجموعی اوسط 15 فیصد اور سرکاری اعدادو شمار میں غُربت کے اس زمرے میں لوگوں کو شامل کیا گیا ہے جہاں چار افراد پر مشتمل خاندان کی اوسط سالانہ آمدنی 23 ہزار ڈالر تھی۔ اس سال کے دوران بے روزگاری کی شرح میں ایک سال پہلے کے مقابلے میں کمی واقع ہوئی۔ لیکن، امیر اور غریب کے درمیان تفاوت بڑھ گیا۔ اوسط سالانہ آمدنی پچاس ہزار ڈالر سے ذرا زیادہ تھی۔ یعنی، اس سے ایک سال پہلے کے مقابلے میں ڈیڑھ فی صد کم۔
اس عنوان سے ’کرسچن سائینس مانٹر‘ میں سکاٹ پیٹرسن رقمطراز ہیں کہ مرکز کی طرف جُھکاؤ رکھنے والے مسٹر روحانی کے اقوام متحدہ کے دورے سےقبل، ایرانی حکومت نے مصالحت اور معقولیت کا لہجہ اختیار کر رکھا ہے۔
پچھلے ہفتے مسٹر روحانی نے توانائی کی پیداوار کے لئے ایرانی جوہری پروگرام کو جاری رکھنے کا موٴقّف ضرور دُہرایا۔ لیکن، تعطل کے شکار مذاکرات میں نئے قدم اُٹھانے پر بھی زور دیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی دائرہٴکار میں رہتے ہوئے ایران اس جوہری بُحران کا جلد سے جلد حل کا متمنّی ہے۔ اسی طرح، ایران کے جوہری سربراہ اکبر صالحی نے پیر کو ویانا میں اقوام متحدہ کے نگراں ادارے کو بتایا کہ ایران جوہری تنازعے کو ختم کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اور اب کی بار ہم اس کے لئے بھر پور عزم لے کر آئے ہیں۔ یہ موقف سابق صدر محمود احمدی نژاد کے سالہا سال کے جھگڑالو لہجے کے بالکل اُلٹ ہے۔
مسٹر اوبامہ اور مسٹر روحانی کے مابین خطوں کا تبادلہ ہوا ہے، جو غیر معمولی بات ہے۔
بلکہ، مسٹر اوبامہ نے ’اے بی سی ٹیلی وژن‘ کو بتایا ہے کہ انہوں نے مسٹر روحانی سے رابطہ کرکے انہیں بتایا ہے کہ ایران شام کے بُحران کو حل کرنے میں شائد ایک کردار ادا کرے۔ جس سے یہ قیاس آرائیاں جنم لے رہی ہیں کہ شائد اگلے ہفتے نیویارک میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران دونوں صدور کا اتّفاق سے ایک دوسرے سے آمنا سامنا ہو جائے۔ اگر ایسا ہوا تو سنہ 1979 کے اُس اسلامی انقلاب کے بعد۔ جب سے باہمی تعلقات کشیدہ ہیں، دونوں ملکوں کے صدور کے مابین ایسا پہلی بار ہوگا۔
امریکی محکمہٴ خارجہ کے ایک سابق خصو صی مشیر، رابرٹ آئن ہارن کہتے ہیں کہ سابق ایرانی حکومت جوہری تنازعہ حل کرنے میں مخلص نہیں تھی جب کہ موجودہ قیادت اس سے بالکل مختلف ہے، جو حقیقت پسند ہے اور جسے اپنی اقتصادی مشکل کے بارے میں کوئی خوش فہمی نہیں ہے۔
کیا ایران کے ساتھ اس سلسلے میں پیشرفت ممکن ہے؟
کانگریشنل ریسرچ سروس کے ایک محقق، کینیتھ کازمن اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ مسٹر اوبامہ کے پاس تعزیرات میں نرمی کرکے ایران کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لئے عاملہ کے زیادہ اختیارات ہیں، جن کی بدولت، وہ مذکرات کے دوران، بعض تعزیرات میں چھوٹ دے سکتے ہیں۔ باوجودیکہ، بعض دوسری تعزیرات کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لئے کانگریس کی منظوری ضروری ہے، جس میں وقت لگتا ہے۔
وڈرو ولسن سنٹر کے وسط مشرق پروگرام کے ڈئرکٹر، صالح اسفندیاری کہتے ہیں کہ مسٹر روحانی سے معجزوں کی توقع نہیں کرنی چاہئے۔ لیکن، اس چیز کا اچھا امکان ہے کہ وہ ایران کو معقول راستے پر واپس لے آئیں۔
گذشتہ پیر کے روز، یہاں واشنگٹن کے نیوی یارڈ میں کام کرنے والے ایک مسلّح شحص کے ہاتھوں 12 افراد کے قتل عام کے بعد، امریکہ میں گن کنٹرول کے قوانین کو زیادہ کڑا کرنے کی ضرورت پر بحث مزید تند ہو گئی ہے۔ ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے مطابق، وہائٹ ہاؤس نے ری پبلکن پارٹی پر پھر یہ الزم لگایا ہے کہ وُہ اس کے لئے ضروری قوانین مرتب کرنے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اس سے قبل، نیو ٹاؤن کنیٹی کٹ میں ایسے ہی ایک قتل عام میں 27 افراد کی ہلاکت کے بعد، صدر اوبامہ نےگن کنٹرول کے قوانین کو سخت کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن، نیشنل رائفل ایسوسی ایشن نے اُسے اپنے حامیوں کی مدد سے ناکام بنا دیا تھا۔
اور، اخبار ’انڈیاناپُلِس سٹار‘ کہتا ہے کہ اسلحہ بنانے والوں کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ بچوں کا قتل عام جاری ہے اور اسلحے سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن، یہ لوگ ٹس سے مس نہیں ہوتے اور اُنہیں معلوم کہ سیاست کیسے کرنی چاہئے۔
اخبار کہتا ہے کہ ہم میں سے جو لوگ اسلحے پر کنٹرول کے حامی ہیں، پُرانی طرز کی دُنیا کے ساتھ اُن کی اور اُن کے مخالفین کی وابستگی مشترک ہے۔ اور ہم پر ایک دوسرے کو محفوظ رکھنے کا فرض عائد ہوتا ہے۔ لیکن، اگر ہم لوگ ایک ایسے معاشرے میں بدل جائیں جس میں ہرشخص کو مسلّح کرنا لازمی ہو جائے، تو پھر ہم سب سے زیادہ اہم اساسی اور بنیادی آزادی سے محروم ہوجائیں گے۔
’بلوم برگ بزنس ویک نیوز‘ کے مطابق، پچھلے سال امریکہ کا غریب طبقہ کم و بیش پہلے ہی کی طرح، ریکارڈ سطح پر تھا۔ اور غریب گھرانوں کی آمدنیوں میں کمی واقع ہوئی۔ البتہ، صحت کی نگہداشت کے بیمے سے محروم لوگوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی۔ غُربت کا مجموعی اوسط 15 فیصد اور سرکاری اعدادو شمار میں غُربت کے اس زمرے میں لوگوں کو شامل کیا گیا ہے جہاں چار افراد پر مشتمل خاندان کی اوسط سالانہ آمدنی 23 ہزار ڈالر تھی۔ اس سال کے دوران بے روزگاری کی شرح میں ایک سال پہلے کے مقابلے میں کمی واقع ہوئی۔ لیکن، امیر اور غریب کے درمیان تفاوت بڑھ گیا۔ اوسط سالانہ آمدنی پچاس ہزار ڈالر سے ذرا زیادہ تھی۔ یعنی، اس سے ایک سال پہلے کے مقابلے میں ڈیڑھ فی صد کم۔