امریکہ میں وسط مدتی انتخابات کے سلسلے میں ووٹنگ جاری ہے، جن انتخابات میں ووٹر صدر ٹرمپ کے حق میں یا مخالفت میں ووٹ دیتے ہوئے ایک نئی کانگریس کی تشکیل کریں گے۔
ان وسط مدتی انتخابات کے نتائج سے امریکی کانگریس میں طاقت کا توازن بدل سکتا ہے اور ان کے اثرات صدر ٹرمپ کی صدارت کے آئیندہ دو سال پر پڑ سکتے ہیں۔
ووٹنگ کا آغاز ایسٹرن ٹائم کے مطابق چھ بجے صبح ہوا، جو بغیر کسی ناغے کے سات بجے شام تک جاری رہے گا۔
صدر ٹرمپ نے ان وسط مدتی انتخابات کے سلسلے میں ٹینیسی میں ایک انتخابی مہم کے دوران خطاب میں امیگریشن کے حوالے سے ڈیموکریٹک پارٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
انتخابی مہم کے دوران، صدر ٹرمپ سینیٹ میں رپبلکن پارٹی کی اکثریت برقرار رکھنے کی پوری کوشش کرتے رہے ہیں۔
اپنے خطاب میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’’ڈیموکریٹس ایک کے بعد ایک غیر ملکی تارکین وطن کے قافلے کو ہمارے ملک میں آنے کی دعوت دینا چاہتے ہیں۔ میرے خیال میں ایسا نہیں ہونا چاہئیے‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’دنیا کا کوئی بھی ملک یہ نہیں چاہتا کہ لوگ اُس کی سرحدوں کو بے دریغ عبور کرتے جائیں‘‘۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ اُنہیں اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ وہ کیا کہتے ہیں۔ ’’مجھے اس بات کی بھی کوئی پروا نہیں کہ جعلی میڈیا اس بارے میں کیا کہتا ہے۔ یہ ہمارے ملک پر ایک حملہ ہے‘‘۔
صدر ٹرمپ کے پیش رو سابق صدر اوباما نے بھی ڈیموکریٹک پارٹی کے اُمیدواروں کیلئے بھرپور انتخابی مہم چلائی۔
اُنہوں نے ایلی نوئے میں ایک انتخابی مہم کے دوران وہاں کے ووٹروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ ووٹ ڈالیں گے تو وہ اس انداز کی سیاست کو مسترد کر دیں گے اور خوف کے مقابلے میں اُمید کا انتخاب کریں گے۔
قبل از وقت ووٹ ڈالنے کیلئے لوگوں میں بہت زیادہ جوش و خروش دیکھا گیا۔
ڈیموکریٹک پارٹی اور رپبلکن پارٹی سمیت دونوں سیاسی جماعتوں کے حامی ان وسط مدتی انتخابات کو صدر ٹرمپ کے بارے میں ایک ریفرینڈم کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
’بروکنگز انسٹی ٹیوٹ‘ کے جان ہوڈیک نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ایسے صدر ہیں جو ان وسط مدتی انتخابات کو خود اپنے لئے ایک ریفرینڈم کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بے حد مقبول ہیں اور وہ خود ہی رپبلکن پارٹی کو فتح کی جانب لے جائیں گے۔
تاہم، تجزیہ کار جان فورٹیئر کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کا مقابلہ صرف ڈیموکریٹک پارٹی سے ہی نہیں ہے بلکہ وہ تاریخ کے خلاف بھی لڑ رہے ہیں۔ ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ وسط مدتی انتخابات کی بڑی تصویر دیکھی جائے تو یہ صدر ٹرمپ کی جماعت کے خلاف جاتی ہے۔ تاہم، اُن کے خیال میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور ڈیموکریٹک اُمیدوار ایوان نمائندگان، گورنروں اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخاب میں بہتر انداز میں کامیابی حاصل کریں گے۔
ان وسط مدتی انتخابات میں یہ بات اہمیت رکھتی ہے کہ لوگ ووٹ ڈالنے کیلئے کتنی بڑی تعداد میں باہر نکلتے ہیں۔