رسائی کے لنکس

امریکی قانون سازوں کا بائیڈن پر افغان سینٹرل بینک کے اثاثے بحال کرنے پر زور


وائٹ ہاؤس نے اس کے ردعمل میں دئے ایک بیان میں کہا ہے کہ فنڈز پر لگی پابندیوں کے معاملے پر اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔
وائٹ ہاؤس نے اس کے ردعمل میں دئے ایک بیان میں کہا ہے کہ فنڈز پر لگی پابندیوں کے معاملے پر اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔

امریکہ کی حکمراں جماعت ڈیموکریٹک پارٹی سمیت ایوانِ نمائندگان کے کئی ارکان نے صدر جو بائیڈن پر زور دیا ہے کہ وہ افغان سینٹرل بینک کے منجمد اثاثے بحال کر دیں تاکہ اقتصادی بحران سے دوچار ملک میں انسانی المیے سے بچا جا سکے۔

امریکی صدر کے نام لکھے گئے ایک خط پر ایوانِ نمائندگان کے 46 اراکینِ کے دستخط موجود تھے جن میں اکثریت حکمراں جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے اراکین کی ہے۔

قانون سازوں نے صدر بائیڈن سے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان پر عائد پابندیاں ہٹانے سمیت افغان سینٹرل بینک کے منجمد اثاثے بھی بحال کر دیے جائیں۔

خیال رہے کہ امریکہ نے اگست میں طالبان کے کابل پر کنٹرول کے بعد افغانستان پر پابندیاں عائد کر دی تھیں جب کہ امریکی بینکوں میں افغان سینٹرل بینک کے لگ بھگ 10 ارب ڈالرز کے اثاثے بھی منجمد کر دیے گئے تھے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ حکومت کا نظم و نسق سنبھالنے والے طالبان رہنماؤں پر امریکی پابندیوں کا اثر افغانستان میں کام کرنے والے عالمی مالیاتی اداروں اور رفاہی تنظیموں پر پڑ رہا ہے۔

اس خط کے ردِعمل میں وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کے منجمد اثاثوں کی بحالی کے حوالے سے اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ البتہ امریکہ وہاں انسانی امداد بہم پہنچانے کے لیے ہر ممکن تعاون کر رہا ہے۔

پابندیوں اور امداد کی بندش کے باعث 20 برس سے بیرونی امداد پر انحصار کرنے والے ملک افغانستان کی معیشت مشکلات سے دوچار ہے جب کہ ماہرین موسمِ سرما اور غذائی قلت کے باعث بڑے انسانی المیے کا بھی خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔

افغانستان میں طالبان حکومت کے رہنما بھی امریکہ سے بارہا مطالبہ کر چکے ہیں کہ اس کے منجمد اثاثوں کو بحال کیا جائے تاکہ معیشت کو دوبارہ سہارا مل سکے۔

اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ چار کروڑ کی آبادی والے ملک میں آدھی آبادی بھوک کا شکار ہے۔ 10 لاکھ سے زائد بچوں کے بارے میں خدشہ ہے کہ وہ شدید بھوک کی وجہ سے کمزوری کے باعث مر سکتے ہیں۔

امریکی قانون سازوں نے خط میں مزید لکھا ہے کہ امریکہ کی طرف سے افغانستان کے 9.4 ارب ڈالر منجمد کرنے سے ملک میں مہنگائی بڑھ رہی ہے اور کمرشل ادارے بند اور نجی کاروبار ٹھپ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے ملک معاشی اور انسانی بحران کا شکار ہو رہا ہے۔

اس خط میں کہا گیا کہ سخت معاشی پالیسیوں سے طالبان رہنما تو کمزور نہیں ہوں گے لیکن بے گناہ افغان شہری اس سے تکلیف کا شکار ہوں گے جو پہلے ہی عشروں پر محیط جنگ اور غربت کے باعث پریشان ہیں۔

قانون سازوں کے بقول "ہمیں اور امدادی گروپوں کو ڈر ہے کہ اگر صورتِ حال میں تبدیلی نہ آئی تو افغانستان میں گزشتہ 20 برس سے جاری جنگ سے زیادہ حالات اب خراب ہو سکتے ہیں۔"

'عالمی برادری کو یہ حقیقت ماننی پڑے گی کہ طالبان حکومت کر رہے ہیں'
please wait

No media source currently available

0:00 0:09:24 0:00

خط میں خبردار کیا گیا ہے کہ افغانستان کے معاشی بحران سے پیدا ہونے والے مصائب اور انسانی المیے کے باعث خطے میں ایک اور ہجرت کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔

افغانستان میں کام کرنے والی امدادی ایجنسیاں ریلیف کے کام کو تیز کرنے کا مطالبہ کرتی آ رہی ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ پابندیوں کی وجہ سے ان کے کام میں مشکلات درپیش ہیں۔

امریکی اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' کے مطابق کانگریس میں ری پبلکن پارٹی کے ارکان نے کہا ہے کہ طالبان کو کسی بھی غیر ملکی فنڈنگ تک رسائی نہیں ملنی چاہیے۔

امریکہ اور دنیا بھر میں کسی بھی ملک نے اب تک طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔

بائیڈن انتظامیہ کا مطالبہ ہے کہ طالبان، القاعدہ سمیت دہشت گرد گروپوں سے تعلقات ختم کریں، سابق حکومت کے ارکان کے خلاف کارروائیاں بند کریں، افغانستان کو دوسرے گروپوں کے ساتھ مل کر چلائیں اور انسانی حقوق سمیت خواتین کو زندگی کے معاملات میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ بچیوں کی تعلیم میں رکاوٹ نہ بنیں۔

اس خط میں طالبان کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنے، سول سوسائٹی پر کریک ڈاؤن اور خواتین کو حقوق نہ دینے کی شکایات پر افسوس کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔

وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے اس خط کے بارے میں وائس آف امریکہ کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ افغان اثاثوں کے معاملے میں نائن الیون کے متاثرین کی جانب سے دائر دعویٰ عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالتی کارروائی کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کو اس مشکل سوال کا بھی سامنا ہے کہ امداد کو طالبان کی رسائی سے دُور رکھ کر عام افغان شہریوں تک کیسے پہنچایا جائے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان اب بھی امریکہ کی بین الاقوامی دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شامل ہیں، اس کے ساتھ ساتھ عدالتی سماعت بھی معاملے کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔

XS
SM
MD
LG