بھارتی نژاد امریکیوں کی سیاسی وابستگی میں تبدیلی
بھارتی نژاد امریکیوں کی اکثریت کو ایک طویل عرصے سے ڈیموکریٹک پارٹی کا حامی تصور کیا جاتا تھا۔
گزشتہ دنوں میں امریکہ کے ’کارنیگی انڈومنٹ‘ نے سروے کے نتائج جاری کیے جس میں بھارتی نژاد امریکی جو 2020 تک خود کو ڈیموکریٹ کہتے تھے ان کی تعداد 56 فی صد تھی جو اب کم ہو کر 47 فی صد ہو گئی ہے۔
ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کاملا ہیرس کا آبائی تعلق بھارت سے ہے اس کے باوجود وہ اب تک 60 فی صد امریکہ میں موجود بھارتی کمیونٹی کی حمایت کے حصول میں کامیاب نظر آتی ہیں۔ ان کے مقابلے میں جو بائیڈن کو چار برس قبل اس کمیونٹی کے 70 فی صد ووٹ ملے تھے۔
دوسری جانب سابق امریکی صدر اور ری پبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارتی کمیونٹی کی حمایت کے حصول میں اضافہ کیا ہے اور ان کی حمایت کی شرح 22 فی صد سے بڑھ کر 33 فی صد ہو چکی ہے۔
ٹرمپ اور کاملا نے ایک دوسرے کو 'ناموزوں' قرار دے دیا
امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ایک دن باقی رہ گیا ہے اور دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدواروں نے ویک اینڈ پر سوئنگ ریاستوں میں ایسے ووٹرز کے پاس پہنچنے کی کوشش کی جو اب تک اپنے ووٹ کے فیصلے کے بارے میں حتمی فیصلہ نہیں کر سکے ہیں۔
منگل کو ہونے والے صدارتی انتخاب میں نائب صدر اور ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار کاملا ہیرس کا مقابلہ سابق صدر اور ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ سے ہے۔
سیاسی پنڈتوں کے مطابق سات سوئنگ ریاستوں میں سے بھی جو امیدوار چار یا اس سے زائد ریاستوں میں کامیابی حاصل کر لے گا، وہ ملک کا 47واں صدر ہوگا۔
امریکی انتخابی سیاست میں سوئنگ ریاستیں ان ریاستوں کو کہا جاتا ہے جہاں کسی بھی امیدوار کی کامیابی کے بارے میں یقین سے کچھ نہ کہا جا سکے۔ ایسی ریاستوں میں ان ووٹرز کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جو آخری وقت تک یہ فیصلہ نہیں کر پاتے کہ انہیں کس امیدوار کو ووٹ دینا ہے۔
ایسے ہی ووٹرز کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کاملا ہیرس اتوار کو ریاست مشی گن پہنچیں۔
مشی گن سات سوئنگ ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ امیدواروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہو گا اور انتخابی نتیجے سے متعلق کچھ کہنا بھی قبل از وقت ہو۔
دوسری جانب ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ تین سوئنگ اسٹیٹس کے مختلف شہروں میں ان دیہی علاقوں میں پہنچے جہاں انہیں توقع ہے کہ کاملا ہیرس کے مقابلے میں انہیں زیادہ ووٹ مل سکتے ہیں۔
امریکہ میں صدارتی الیکشن منگل ہی کو کیوں ہوتا ہے؟
امریکہ میں ہر چار سال بعد صدارتی اتنخابات ہوتے ہیں لیکن الیکشن کا دن ہمیشہ ایک ہی رہتا ہے جو نومبر کے پہلے پیر کے بعد آنے والا منگل ہے۔ لیکن الیکشن کے لیے اسی دن کا انتخاب کیوں کیا گیا؟ اس کا تعلق امریکی سیاسی تاریخ اور امریکیوں کے روزمرہ کے معمولات سے ہے۔
امریکہ کی آزادی کے بعد 1788 میں ہونے والے پہلے صدارتی الیکشن کے بعد 1800 کی ابتدائی دہائیوں تک ریاستیں 34 دن کے دورانیے میں کسی بھی دن الیکشن کرا سکتی تھیں اور اس کے لیے کوئی ایک دن مقرر نہیں تھا۔
اس کی وجہ سے کئی مسائل پیدا ہوتے تھے۔ پالیسی سازوں کو جلد اس بات کا اندازہ ہو گیا کہ 34 دن کے دورانیے میں جن ریاستوں میں پہلے ووٹنگ ہو جائے گی اس کے نتائج دیگر ریاستوں کی رائے عامہ کو بھی متاثر کریں گے۔
اس مسئلے کا یہ حل نکالا گیا کہ پورے امریکہ میں صدارتی الیکشن کے لیے ایک دن اور تاریخ متعین کر دیے جائیں۔
کانگریس نے 1845 میں قانونی سازی کر کے نومبر میں پہلے پیر کے بعد آنے والے منگل کو انتخاب کا دن مقرر کردیا۔ لیکن الیکشن کے لیے اس دن اور مہینے کا تعین بہت سوچ بچار کے بعد کیا گیا اور ووٹرز کی زیادہ سے زیادہ سہولت کو پیشِ نظر رکھا گیا۔
ہیرس اور ٹرمپ کی خواتین سے سلوک کے معاملے پر نوک جھونک
امریکی الیکشن سے قبل نائب صدر کاملا ہیرس اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ مختلف ریاستوں میں ریلیوں سے خطاب کرتے ہوئے معاشرے میں خواتین سے سلوک کے مسئلے پر نوک جھونک کر رہے ہیں۔
پانچ نومبر کے الیکشن میں دونوں امیدوار جمعرات کو امریکہ کی جنوب مغربی کانٹے کے مقابلے کی ریاستوں ایریزونا اور نیواڈا میں ووٹروں سے خطاب کر رہے تھے۔
عوامی جائزوں کے مطابق ڈیموکریٹک امیدوار ہیرس اور ان کے ری پبلیکن مد مقابل ٹرمپ ان دو ریاستوں میں قریبی مقابلے میں برابر جار رہے ہیں۔
ایریزونا اور نیواڈا ان سات ریاستوں میں شامل ہیں جو کہ منگل کو ہونے والے صدارتی انتخاب کے نتیجے پر بہت اثرا انداز ہوں گی۔
امریکہ کی پچاس میں سے باقی 43 ریاستوں میں دونوں امیدواروں کو ایک دوسرے پر واضح سبقت حاصل ہے۔