|
امریکی معیشت کی جولائی سے ستمبر پر محیط تیسری سہ ماہی میں حقیقی شرح نمو 3.1 فیصد ریکارڈ کی گئی جو کہ ابتدائی اندازوں سے بڑھ کر رہی۔
کامرس ڈیپارٹمنٹ کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی معیشت کی تیسری سہ ماہی میں جی ڈی پی میں اضافہ پہلے کے 2.8 فیصد کے تخمینے سے خاصا زیادہ تھا۔
جمعرات کو جاری ہونے والے حکومتی اعداد و شمار کے مطابق معیشت کی شرح ترقی تجزیہ کاروں کی ان توقعات کے برعکس ہے جن میں پیش گوئی کی گئی تھی کہ شرح نمو میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئے گی۔
کامرس ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ نے نوٹ کیا کہ شرح نمو میں تیزی نظر ثانی شدہ برآمدات میں اضافے اور صارفین کے اخراجات کے مضبوط رجحان کی وجہ سے ممکن ہوئی۔
معیشت کی نمو میں یہ اضافہ نجی انوینٹری سرمایہ کاری کے اعداد و شمار میں نظر ثانی کے بعد کمی کے باوجود ہوا ہے۔
قبل ازیں، دوسری سہ ماہی میں جی ڈی پی کی شرح نمو تین فیصد رہی تھی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی معیشت نے ایسے وقت میں لچک کا مظاہرہ کیا ہے کہ جب گزشتہ برسوں میں کرونا کی عالمی وبا کے باعث صارفین کی بچت میں کمی واقعہ ہوئی۔
علاوہ ازیں، لوگوں کو فیڈرل ریزرو کی جانب سے افراط زر پر قابو پانے کے لیے متعارف کراوائی گئی شرح سود میں اضافہ درپیش رہا۔
محکمے نے کہا کہ دوسری سہ ماہی کے مقابلے میں تیسری سہ ماہی میں حقیقی جی ڈی پی نمو میں اضافے کی وجوہات میں برآمدات میں اضافہ، صارفین کی جانب سے زیادہ اخراجات اور وفاقی حکومت کی طرف سے خرچ شامل ہیں۔
اس ضمن میں رائن سویٹ جو "آکسفورڈ اکنامکس" کے امریکہ کے لیے اعلیٰ ترین ماہرِ اقتصادیات ہیں، کہتے ہیں،" نظر ثانی شدہ تشکیل ہمارے اس یقین کو تقویت دیتی ہے کہ معیشت ٹھوس بنیادوں پر چل رہی ہے اور یہ کہ 2025 ایک اور اچھا سال ہو گا۔"
صارفین کے اضافی اخراجات کے رجحان کے باوجود سویٹ نے خبردار کیا کہ گھریلو آمدنیوں میں تفاوت کی بنا پر تبدیلیاں ہو سکتی ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ زیادہ آمدنی والے گھرانے مقابلے کی لیبر مارکیٹ، ہاؤسنگ میں اضافہ، اور اسٹاک مارکیٹ کی دولت سے مستفید ہو ر ہے ہیں۔
دوسری طرف کم آمدنی والے گھرانے مالی دباؤ میں رہتے ہیں اور اس صورت حال میں اگلے سال تبدیلی کا امکان نظر نہیں آتا۔
(اس خبر میں شامل معلومات اے ایف پی سے لی گئی ہیں)
فورم