امریکہ نے مغربی کنارے میں نئی یہودی آبادکاری کی تعمیر کے لیے اجازت دیے جانے پر اسرائیل کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فلسطین کے ساتھ امن کے امکانات کے لیے نقصان دہ اور واشنگٹن میں کروائی گئی یقین دہانی کے منافی ہے۔
اسرائیل نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ مغربی کنارے میں نئی آبادکاری کے منصوبے کو مزید آگے بڑھائے گا۔
وائٹ ہاوس اور محکمہ خارجہ نے اس فیصلے کی "شدید مذمت" کرتے ہوئے کہا کہ یہ تنازع کے دو ریاستی حل کے لیے مضر ہوگا۔
مشرقی وسطیٰ میں اپنے اتحادی ملک کے خلاف غیر معمولی طور پر سخت الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے واشنگٹن نے اسرائیل پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ وہ اپنے وعدے سے پھر رہا ہے۔
وائٹ ہاوس کے ترجمان جوش ارنسٹ نے نیوز بریفنگ کے دوران کہا کہ "ہمیں اسرائیلی حکومت کی طرف سے جو یقین دہانی کروائی گئی تھی وہ اس اعلان سے متصادم ہے۔"
گزشتہ ماہ نیویارک میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے ملاقات میں امریکی صدر براک اوباما نے بھی مغربی کنارے میں آبادکاری کے بارے میں اپنے تحفظات سے انھیں آگاہ کیا تھا۔
امریکہ کا اصرار ہے کہ نئی آبادکاری کا منصوبہ نیتن یاہو کی اس یقین دہانی سے منافی ہے جو انھوں نے نیتن یاہو کی طرف سے کروائی گئی تھی کہ وہ نئی آبادکاری کے لیے تعمیرات نہیں کریں گے۔
اسرائیل کا موقف ہے کہ نئی آبادکاری کے تعمیرات پہلے سے موجود یہودی آبادی میں کی جا رہی ہے اور وہ اسے شیلو کا نام دیتا ہے جو کہ رملہ اور نابلوس کے درمیان شمال کی طرف واقع ہے۔
اسرائیلی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ نئی تعمیرات کا مطلب نئی آبادکاری نہیں ہے۔
"یہ آبادکاری شیلو میں سرکاری زمین پر پہلے سے موجود آبادی میں ہو رہی ہے جو کہ بلدیاتی اور جغرافیائی حدود میں ہے"۔
بیان میں کہا گیا کہ اسرائیل دو ریاستی حل کے عزم پر قائم ہے۔
بدھ کو اوباما انتظامیہ نے اسرائیل کے اس رویے پر سوال اٹھائے۔