پیر کو کوئٹہ میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان میں افغان مہاجرین کے قائدین نے حکومت سے اپیل کی کہ افغانستان میں مکمل امن کی بحالی تک مہاجرین کے بچو ں کومقامی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت اور کیمپوں میں مقیم افغانوں کو پانی و بجلی سمیت دیگر بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں ۔
مہاجرین کی نمائندگی کرنے والے د تادین اور مُلا نا در خان سلیمان خیل نے الزام لگایا کہ پناہ گیزینوں کے لیے اقوام متحدہ کا ادارہ یو این ایچ سی آرافغان مہاجرین کی امداد اور تعاون نہیں کر رہا ۔ انھوں نے کہا کہ یہ صورت حال گزشتہ سال اُس وقت سے برقرار ہے جب کو ئٹہ میں یواین ایچ سی آر کے صوبائی سر براہ جان سو لیکی کو اغوا کر لیا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ بلو چستان کے دس کیمپوں میں مقیم افغان مہاجر ین واپس اپنے وطن جانا چاہتے ہیں مگر وہا ں امن نہیں ہے اور اس کے ساتھ گزشتہ 30 سالہ جنگ کے باعث ان کے دیہات اور گھر تباہ ہو گئے ہیں جبکہ عالمی اداروں کی امد اد اور تعاون کے بغیر وہ اپنے گھر افغانستان میں دو بارہ تعمیر نہیں کر سکتے اس لیے مکمل امن کے قیام تک حکومت پاکستان افغان مہاجر ین کو بعض اور ضروری سہو لیات فراہم کرے تاکہ مہاجر ین کی مشکلا ت کم ہو ں ۔
صوبے میں اقوام متحدہ کے ادارے کی ترجمان دنیا اسلم خان نے وائس آف امریکہ سے با ت کر تے ہو ئے اعتراف کیا ہے کہ بلوچستان میں سلامتی کے خدشات کے پیش نظر خاص طور پر جان سولیکی کے اغوا کے واقعے کے بعد عالمی تنظیم نے اپنی سرگرمیاں محدود کر رکھی ہے۔ لیکن انھوں نے افغان مہاجرین کی طر ف سے لگائے گئے الزاماات کو غلط قرار دے کر مسترد کیا ہے۔
بلو چستان میں تقر یباً چار لاکھ افغان مہاجرین مقیم ہیں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کے زیر اہتمام مہاجر ین کی واپسی کا سلسلہ شر وع کیا گیا تھا اور دسمبر 2009 تک تمام مہاجرین کی واپسی کا شیڈ و ل دیا گیاتھا تاہم افغانستان میں سکیورٹی کے خراب حا لات کی وجہ سے اقوام متحدہ، افغان حکومت اور پاکستان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت افغان مہاجرین کو وطن واپس بھیجنے کے ڈیڈ لائن میں ایک بار پھر توسیع کر دی گئی ہے۔