اقوام متحدہ ہیڈکوارٹرز میں جنرل اسمبلی ہائی لیول ڈیبیٹ کا چوتھا روز تھا۔ پاکستان کے وزیراعظم میاں شہباز کا جنرل اسمبلی ڈیبیٹ میں ڈیبیو بھی تھا۔
آج ہی امریکہ میں موسم خزاں کا پہلا روز بھی تھا۔ صاف نیلگوں آسمان، چمکتی دھوپ کے باوجود ہوا میں بڑے دنوں بعد خنکی تھی۔ نیویارک شہر میں گزشتہ دنوں کی طرح دور دور تک پولیس کی گاڑیاں اور انٹرسیکشنز پر خواتین اور مرد پولیس افسران مستعد نظر آئے۔
سکیورٹی چیکس سے گزر کر جب فرسٹ ایونیو پر واقع اقوام متحدہ ہیڈکوارٹرز کی بلڈنگ کے سامنے پہنچی تو وہ رونق نظر نہ آئی جو امریکی صدر جو بائیڈن کے خطاب کے روز تھی۔ میڈیا کی گہما گہمی اور عمارت کے باہر میڈیا کے لیے مخصوص جگہ پر پہلے دوسرے روز کے مقابلے میں خاصی کم تعداد میں کیمرے لگے تھے، اس کی وجہ غالباً یہ ہو کہ گزشتہ تین روز کے دوران بہت سے ممالک کے سربراہان کے خطاب مکمل ہو چکے ہیں اور اس طرح ان ممالک کے میڈیا کا کام بھی یہاں ختم ہو چکا۔
وزیراعظم کی تقریر جو کہ دن کے بارہ بجے کے لیے شیڈول تھی دیگر تقاریر کی طوالت کی وجہ سے دوپہر ایک بجے کے بعد شروع ہوئی۔ جنرل اسمبلی ہال میں پاکستان کی ڈیسک دوپہر تقریباً پونے ایک بجے تک خالی ہی رہی جس کے بعد وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری، وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر اور ماحولیاتی تبدیلی پر وفاقی وزیر شیری رحمان نے ہال میں پاکستان ڈیسک پر سیٹس سنبھالیں۔ کچھ دیر بعد فائنانس منسٹر مفتاح اسماعیل اور وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب بھی ان کے پیچھے آکر بیٹھ گیے۔
جنرل اسمبلی ڈیبیٹ میں ہر ملک کو تقریر کے لیے پندرہ منٹ دیے جاتے ہیں مگر اکثر تقاریر اس دورانیے تک محدود نہیں رہ پاتیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی اٹھائیس منٹ سے کچھ لمحے زائد دورانیئے کی تقریر کی۔ ان کی تقریر کا بیشتر حصہ پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے متعلق تھا، جس کے بعد انہوں نے کشمیرکے تنازعے پھر افغانستان، فلسطین، شام اور یمن کے معاملات پر اسمبلی کی توجہ دلائی۔
کشمیر پر گفتگو کرتے ہوئے ان کی تقریر میں ایک موقعہ ایسا آیا جب وہ لکھی گئی تحریر سے ہٹ کر فی البدیہہ گفتگو کرنے لگے اور انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت پڑوسی ہیں اور ہمیشہ رہیں گے، یہ انہیں طے کرنا ہے کہ وہ امن سے رہنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کو اپنی توانائیاں مزید اسلحے پر خرچ کرنے کے بجائے پر امن ڈائیلاگ سے اپنے مسائل حل کرنے چاہئیں۔ ان کے مطابق دونوں ملکوں کے پاس اتنا اسلحہ ہے کہ جنگ کا آپشن موجود نہیں۔
دوپہر ایک بجے وزیراعظم کی تقریر کے بعد وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی میڈیا بریفنگ شیڈول تھی لیکن وزیراعظم کی تقریر کا وقت آگے بڑھنے پر بریفنگ کو بھی آگے بڑھانا پڑا۔
وزیراعظم کی تقریر کے بعد بلاول بھٹو کو تو بحیثیت وی آئی پی فوری طور پر بریفنگ روم پہنچا دیا گیا مگر پاکستان کی کوریج پر مامور میڈیا کے نمائندے ایک لفٹ سے دوسری لفٹ اور ایک راہداری سے دوسری میں بریفنگ روم کی تلاش میں ہی پھرتے رہے۔
پہنچنے کے بعد چار پانچ سوالات کے بعد ہی بریفنگ ختم ہوگئی۔ بریفنگ کے بعد وزیر خارجہ کے ساتھ مشن، اور سفارتخانے کا تمام اسٹاف بھی غائب ہوگیا۔ گویا انہوں نے چھ روز بلکہ اس سے بھی پہلے سے جاری بھاگ دوڑ ختم ہونے پر سکون کا سانس لیا ہو۔
وزیراعظم آج شام ہی واپس جا رہے ہیں اور ان کے ساتھ آئے وزراء کی اکثریت بھی۔
نیچے سیکریٹریٹ لابی میں کچھ دیر بعد دیکھا تو سیلاب پر پاکستان کی پکچر ایگزیبیشن کی کئی تصاویر زمین پر گری نظر آئیں۔ایک دن پہلے یہاں ان ہی تصاویر کے سامنے نیو یارک آنے والے تمام پاکستانی وزراٗ ایک کے بعد ایک میڈیا سے گفتگو کر چکے تھے اورپاکستانی اور غیر ملکی میڈیا نمائندوں کو بتاچکے تھے کہ سیلاب کے چیلنج سے نمٹنے میں بین الاقوامی برادری کو پاکستان سے تعاون کرنا ہوگا ۔۔اس وقت مگر یہاں اس تصویری نمائش میں نہ پاکستانی مشن یا سفارتخانے کا کوئی اسٹاف نظر آیا نہ ہی لابی میں موجود سکیورٹی کے لوگوں میں کسی نے آگے بڑھ کر ان تصاویر کو دوبارہ لگانے کی کوشش کی۔
بھاگ دوڑ تو آج ہماری بھی ختم ہو رہی تھی۔ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کوریج کے لیے روز گھنٹوں ٹرین، سب وے اور پیدل سفر پھر مزید گھنٹوں بغیر وقفے کے کھڑے رہنا۔ یہ سوچ کر کہ آج ہفتے کا اختتام ہے ایک سکون کا احساس لیے عمارت سے قدم باہر رکھا تو ٹھنڈی ہوا کے جھونکے نے استقبال کیا ۔۔۔۔۔اور پھر میں بھی آنکھوں میں وہی اجنبیت لیے، جو باہر سے آنے والوں کو اس شہر کے لوگوں اور یہاں کام کرنے والوں کا خاصہ معلوم ہوتی ہے، نیویارک کی سڑکوں پران ہزاروں مسافروں میں شامل ہوگئی جو صبح شام تیز قدموں کے ساتھ اپنی منزل کی جانب بڑھتے نظر آتے ہیں۔