اقوام متحدہ کے ادارہ برائے سائنس و ثقافت ’یونیسکو‘ کے ایگزیکٹو بورڈ نے منگل کو ایک متنازع قرار داد منظور کی، جس میں یروشلم میں واقع مقدس مقام بیت المقدس سے متعلق یہودیوں کا ذکر نہیں ہے۔
یہودی اس مقام کو ’’ٹیمپل ماؤنٹ‘‘ کا نام دیتے ہیں، جب کہ مسلمان اسے مسجد اقصیٰ کہتے ہیں۔
اسرائیل نے کہا ہے کہ یروشلم کے تاریخی مقام سے یہودیوں کے تعلق کو اس قرار داد میں نظر انداز کیا گیا، جس پر اسرائیل کی حکومت اور دنیا بھر میں بہت سے یہودیوں نے ناراضگی کا اظہار کیا۔
اس قرار داد کے یروشلم پر کسی طرح کے واضح اثرات تو ممکن نہیں لیکن اس سے شہر اور ’یونیسکو‘ میں کشیدگی پیدا ہو گئی ہے۔
اس قرار داد میں یروشلم میں مقدس مقامات کے تحفظ سے متعلق ضابطے واضح کیے گئے ہیں اور قرار داد میں بیت المقدس کا صرف اسلامی نام ہی شامل کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ قدیم یروشلم شہر میں واقع دیواریں (اسلام، یہودی اور نصرانی) تینوں مذاہب کے ماننے والوں کے لیے مقدس مقام ہیں۔
سعودی عرب کے شہر مکہ میں خانہ کعبہ اور مدینہ میں مسجد نبوی کے بعد مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔
یونیسکو میں اسرائیل کے سفیر کارمیل شمع ہوکوہین نے کہا کہ یہ تنظیم تاریخ کو بچانے کے لیے بنائی گئی تھی نا کہ تاریخ کو دوبارہ لکھنے کے لیے۔ اُنھوں نے کہا کہ ’’فلسطین اور دیگر ممالک یروشلم کی تاریخ کو دوبارہ لکھنا چاہتے ہیں۔ ہمیں نا تو فلسطین سے اجازت لینے کی ضرورت ہے اور، نہایت احترام کے ساتھ، نا ہی یونیسکو کے ایگزیکٹو بورڈ سے۔‘‘
دوسری جانب یونیسکو میں فلسطین کے نائب سفیر منیر انستاس نے یروشلم سے متعلق قرار داد کا خیر مقدم کیا۔
’یونیسکو‘ کے بورڈ نے اس قرار داد کی منظوری منگل کو دی البتہ اس سے قبل کمیشن کی طرف سے گزشتہ ہفتے اس کے مسودے کو منظور کر لیا گیا تھا۔
جس کے بعد اسرائیل نے گزشتہ ہفتے ہی ’یونیسکو‘ سے اپنا تعاون معطل کر دیا تھا، لیکن یہ واضح نہیں اس کے تنظیم پر کیا اثرات ہوں گے۔
واضح رہے کہ جب فلسطین کو اقوام متحدہ کی رکنیت دی گئی تھی، اُس وقت سے اسرائیل نے ’یونیسکو‘ کے لیے فنڈنگ معطل کر دی تھی۔