اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ہفتے کی شام صرف ترکی کے ایک راستے سے ہی شمال مغربی شام میں امداد بھیجنے کی اجازت دی ہے۔ اس فیصلے تقریباً 13 لاکھ شامی باشندے امداد سے محروم ہو جائیں گے۔
سلامتی کونسل میں شام میں امداد کی ترسیل کے مسئلے پر کئی دن یہ بحث چلتی رہی، کیونکہ روس اور چین امداد کی ترسیل کو محدود راستوں تک محدود رکھنے پر مصر رہے۔ آخر کار ہفتے کی شام سلامتی کونسل نے اس پر اتفاق کیا کہ شمال مغربی شام کے لیے صرف ترکی کے ایک سرحدی راستے سے ترسیل جاری رکھی جائے گی۔
منگل سے جمعہ تک شام کے لیے امداد کی ترسیل پر کئی بار ووٹنگ ہوئی مگر روس نہیں چاہتا تھا کہ باب السلام کے راستے کو بند کر دیا جائے، جو شمالی حلب جاتا ہے۔ بحث و مباحثہ کے بعد روس کے موقف کو تسلیم کر لیا گیا۔ جس کے نتیجے میں بشار الاسد کے کنٹرول والے علاقے کے 13 لاکھ افراد امداد سے محروم ہو جائیں گے۔ سلامتی کونسل کے اس نئے فیصلے کے تحت باب الحاوہ کی سرحدی چوکی مزید ایک سال کے لیے کھلی رہے گی۔
موجودہ اجازت کی مدت جمعہ کی رات کو ختم ہو گئی تھی۔ سمجھوتے کے بعد رائے شماری ہوئی اور قرار داد کے حق میں 12 ملکوں نے ووٹ دیے، جب کہ روس اور چین نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ اس طرح انہیں یہ دکھانا مقصود تھا کہ قرار داد مناسب طور پر جان دار نہیں ہے۔
امریکی سفیر کیلی کرافٹ نے کہا کہ یہ وہ قرار داد نہیں ہے، جس کے لیے ہم اور سلامتی کونسل کے اکثر ارکان چھ ہفتوں سے جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ یہ وہ قرار داد بھی نہیں ہے جس کی حمایت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور شام میں کام کرنے والی درجنوں غیر سرکاری تنظیمیں کرتی رہی ہیں۔ بہرحال مجوزہ قرار داد اس لیے ضروری تھی کہ امداد کا سلسلہ کچھ نہ کچھ جاری رہے۔
یونیسیف کا کہنا ہے کہ باب السلام کا راستہ بند ہو جانے کی صورت میں حلب کے علاقے میں پانچ لاکھ بچے خوراک، ادویات، ویکسین اور دیگر اہم سہولتوں سے محروم ہو جائیں گے۔
سفارت کار آخر وقت تک روس کو اس بات پر رضامند کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ باب السلام کے راستے کو کھلا رکھنے کی مدت میں کم از کم تین ماہ کی توسیع دے دی جائے، تاکہ اس دوران وہاں کی آبادی کو امداد پہنچانے کا کوئی متبادل راستہ نکال لیا جائے۔ مگر روس اس تجویز پر بھی متفق نہ ہوا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ روس کی مرضی کے مطابق قرارداد پیش کی گئی، مگر اس کے باوجود روس نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا اور قرارداد کے بارے میں شاکی رہا۔
اقوام متحدہ میں روس کے نائب سفیر دیمتری پولی آنسکی نے کہا کہ ہم اس ماہ کے اوائل ہی میں کسی نتیجے تک پہنچ سکتے تھے۔ روس شروع سے ادلب جانے والی سرحدی چوکی کو کھولنے کی سفارش کر رہا تھا۔
اقوام متحدہ اور انسانی ہمدردی کے لیے کام کرنے والے گروپ شام جانے والے راستوں کو مزید کھولنے کی سفارش کرتے رہے ہیں۔ اس میں شمالی عراق سے شام جانے والا راستہ بھی شامل تھا، جہاں سے طبی سامان پھیجا جاتا تھا۔ مگر چین اور روس نے اس کو بھی جنوری میں بند کروا دیا تھا۔
کرونا وائرس کی وبا کے پیش نظر طبی سامان کی رسد شام کے باشندوں کے لیے بے حد اہم ہے۔ کیونکہ شام شدید معاشی بحران کا بھی شکار ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کے لیے دو وقت روٹی کا حصول ممکن نہیں رہا اور ایسے میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ملنے والی امداد پر ہی ان کا انحصار تھا۔