اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایرانی مظاہرین کی طرف سے تہران میں سعودی سفارتخانے پر حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور ایرانی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سفارتکاروں اور ان کی املاک کی حفاظت کریں۔
سعودی عرب نے تہران میں واقع سفارتخانے اور مشہد میں اپنے قونصل خانے پر حملوں کے بعد اتوار کو ایران سے سفارتی تعلقات منقطع کر دیے تھے۔
یہ مظاہرے سعودی عرب میں ایک اہم شیعہ عالم شیخ نمر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد شروع ہوئے تھے۔ ایران نے سعودی عرب کے اس عمل کی مذمت کی تھی جبکہ ایران اور عراق میں مظاہرین نے تیسرے روز بھی سعودی سفارتخانے کے باہر سزائے موت کے خلاف مظاہرے کیے۔
ایران کے قریبی اتحادیوں بحرین اور سوڈان نے بھی ایران سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ متحدہ عرب امارات نے تعلقات کی سطح کم کرنے اعلان کیا۔
اگرچہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے شیعہ عالم دین کو سزائے موت دینے پر ’’سخت مایوسی‘‘ کا اظہار کیا تھا مگر کئی گھنٹنے مشاورت کے بعد پیر کی رات جاری کیے جانے والے اپنے بیان میں سلامتی کونسل نے عالم دین اور 46 دیگر کی سزائے موت کا ذکر نہیں کیا۔
اقوم متحدہ میں سعودی عرب کے مشن کا کہنا تھا کہ ان کے ملک نے سزائے موت پانے والے تمام 47 افراد کو ’’منصفانہ اور عادلانہ‘‘ سماعت کا موقع دیا۔
اپنے بیان میں سعودی عرب نے کہا کہ ان تمام افراد کو سزائے موت دینے کا فیصلہ ان کے علمی، نسلی اور فرقے کے پس منظر کو خاطر میں لائے بغیر ’’ان کے مجرمانہ اور غیر قانونی افعال کی بنا پر کیا گیا۔‘‘
ایران نے پیر کو اقوام متحدہ کو لکھے گئے ایک خط میں سفارتخانے پر حملے پر ’’افسوس‘‘ کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ تمام ذمہ داران کو گرفتار کرے گا۔ خط میں کہا گیا کہ 40 سے زائد مظاہرین کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور حکام دیگر مشتبہ افراد کو تلاش کر رہے ہیں۔
تاہم سعودی عرب کا کہنا ہے کہ وہ ایران سے تعلقات اس وقت بحال کرے گا جب وہ دیگر ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کر دے گا۔
سعودی عرب کے اقوم متحدہ میں سفیر عبداللہ المعلمی سے جب پیر کو ایک نامہ نگار نے پوچھا کہ کس طرح ایران سے تعلقات بحال ہو سکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ’’بہت سادہ ہے۔ ایران ہمارے سمیت دیگر ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے پرہیز کرے۔ اگر وہ ایسا کرے تو ہم یقیناً اس کے ساتھ معمول کے تعلقات رکھیں گے۔ ہم ایران کے قدرتی دشمن پیدا نہیں ہوئے۔‘‘
المعلمی نے یہ بھی کہا کہ اس تنازع کے باوجود ان کا ملک شام اور یمن میں امن کے لیے کوششوں کی حمایت کے لیے ’’سخت محنت‘‘ کرتا رہے گا۔
دریں اثنا، سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے پیر کو اعلان کیا ہے کہ وہ ایران سے فضائی سفر اور تجارتی تعلقات بھی منقطع کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے سفارتی عمل کی ذمہ داری ایران کی ’’جارحانہ پالیسیوں‘‘ پر عائد کی۔