اقوامِ متحدہ کی مدد سے مرتب کی گئی ایک نئی رپورٹ میں شام میں جاری چار سالہ جنگ کے تباہ کن معاشی اور معاشرتی اثرات کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔ شام میں جاری خانہ جنگی کے ساتھ اب داعش کے خلاف کثیرالاقومی جنگ سے ملک میں تشدد مزید بڑھا ہے۔
منگل کو جاری کی جانے والی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنگ سے شامی معیشت کو 202.6 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے جس سے سارے ملک میں ’’شدید ناانصافی اور عدم مساوات‘‘ پھیلی ہے جہاں عوام کو خوراک کے حصول میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
اس کے نتیجہ میں بے روزگاری میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ 2011 میں جنگ شروع ہونے کے وقت بے روزگاری کی شرح 15 فیصد تھی جو گزشتہ برس کے اختتام تک بڑھ کر 58 فیصد ہوگئی۔ جنگ شروع ہونے سے لے کر اب تک تقریباً چالیس لاکھ لوگوں کا روزگار چھن گیا جبکہ ملک کی آبادی دو کروڑ 10 لاکھ سے کم ہو کر ایک کروڑ 75 لاکھ رہ گئی ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’شام میں غربت میں تباہ کن اضافہ 2014 میں جاری رہا جہاں پانچ میں سے چار سے کچھ اوپر شامی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔‘‘
اب تک اس جنگ کا سیاسی حل تلاش کرنے میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی۔ اس جنگ کے دوران 220,000 افراد ہلاک، 38 لاکھ ہمسایہ ممالک میں پناہ لینے جبکہ مزید 68 لاکھ افراد گھر چھوڑ کر شام کے دوسرے علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔
سیریئن سنٹر فار پالیسی ریسرچ نے یہ رپورٹ اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام اور شام کے اندر کیمپ چلانے والی اقوامِ متحدہ کی فلسطینی مہاجرین کی ایجنسی کی مدد سے تحریر کی۔