اقوام متحدہ کے نمائندہٴ خصوصی برائے شام کا کہنا ہے کہ خدشہ ہے کہ سال کے آخر تک حلب ’’مکمل طور پر تباہ‘‘ ہوجائے گا، کیونکہ شہر میں ’’مستقل، ظالمانہ‘‘ فوجی حملے جاری ہیں، جہاں 275000 شہری آبادی محصور ہے۔
استفان ڈی مستورا اور اُن کے مشیر خصوصی جان ایجلینڈ نے جمعرات کے روز ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے النصرہ کے باغی گروپ پر زور دیا کہ وہ اپنے اقدامات کے نتیجے میں ہونے والی تباہی و بربادی پر نظر ڈالیں، جس اذیت کو ملک کی شہری آبادی جھیل رہی ہے۔
ڈی مستورا نے کہا کہ ’’آپ لوگ ایک ہزار پر مشتمل ہیں جو 275000 شہریوں کی قسمت کا فیصلہ کر رہے ہیں‘‘۔
مشرقی حلب پر شدید بم حملوں پر اُنھوں نے روسیوں پر نکتہ چینی کی، جن کے نتیجے میں شہری آبادی کو خطرات لاحق ہیں، جب کہ لڑنے والے باغیوں کی تعداد گنتی کے برابر ہے۔
کچھ گھنٹے بعد، روسی وزارتِ دفاع کے ترجمان، میجر جنرل اگور کوناشنکوف نے ماسکو میں صحافیوں کو بتایا کہ حکومتِ شام کے کنٹرول والے خطے کے خلاف فضائی اور میزائل حملے کیے جا رہے ہیں؛ جس سے شام میں موجود روسی فوجی اہل کاروں کو ’’واضح خطرہ‘‘ لاحق ہے۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ شام میں دو روسی فوجی اڈے، جن میں سے ایک خمائمین کا فضائی اڈا اور دوسرا طارتوس کا بحری اڈا ہے، جن کا تحفظ ’ایس 300‘ اور ’ایس 400‘ زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل نظاموں کی مدد سے کیا جارہا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’شناخت کے بغیر‘‘ چلنے والے جہازوں کے لیے یہ نظام ’’حیران کُن‘‘ تباہی کا باعث بن سکتے ہیں۔