یوکرین کی لڑائی دو سال سے جاری ہے، جس میں ملوث متعدد افراد یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا اس تنازعے کو بھول چکی ہے۔ اس سلسلے میں اب تک سفارتی کاوشیں ناکام دکھائی دیتی ہیں، کئی لوگوں کے خیال میں لڑائی کا خاتمہ تب ہی ہوگا جب کشیدگی میں مزید اضافہ ہو یا پھر اِس کا متبادل سامنے آئے۔
جب 2014ء میں ڈونیسک کے خطے میں ہورولکا کے قصبے پر گولہ باری کی گئی، اولگا الیشنکا کا گھر اور اُن کا کاروبار تباہ ہوا، اور اُن کے خاندان کو نئے سرے سے کاروبار شروع کرنا پڑا۔
وہ کراماٹورسک کی شاہراہ کی جانب منتقل ہوئے، یہ قصبہ جو اُس وقت یوکرین کے کنٹرول والے علاقے کے ایک کونے میں واقع تھا، اُنھوں نے ایک اپارٹمنٹ تلاش کیا اور ایک ریستوران قائم کیا۔
اُنھوں نے خصوصی طور پر اپنے بچوں کے تحفظ کی کوشش کی اور اُن کا مقصد تحفظ کی فراہمی تھا۔ بقول اُن کے، ’’ہاں، مجھے پتا ہے کہ ہم وہ صورت حال واپس نہیں لاسکتے جو کبھی یہاں تھی۔ یہ بات یقینی ہے۔ لیکن، کم از کم ہم حالات کو اِس سے زیادہ خراب تو نہ بنائیں‘‘۔
اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے، کراماٹورسک میں بھی گولہ باری شروع ہوئی۔
اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’میں خوف زدہ ہوں کہ کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں رہی، یہ جگہ ہو یا کوئی اور مقام۔ اگر آپ یہ خیال کرتے ہوں کہ یہ مقام پر امن ہے، تو ایسا نہیں۔ یہی صورت حال وہاں بھی پیدا ہوجائے گی‘‘۔
اس تنازعے کو دو برس بیت چکے ہیں۔ الیشنکا کا کہنا تھا کہ اُن کا خاندان بس زندہ ہے اور وہ صرف ایک ہی چیز چاہتی ہیں، اور وہ یہ کہ یہ جنگ بند ہو۔
وہ اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتی ہیں کہ اُنھیں ایک اپارٹمنٹ میسر آیا، اور بے دخل ہونے والوں کے لیے قائم کردہ پناہ گاہ کی طرف جانے پر مجبور نہیں ہوئیں، جہاں ہزاروں لوگ مقیم ہیں۔
خاندان در خاندان، اب بھی لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہیں۔ لیکن، لڑائی کے آغاز کی صورت حال کے برخلاف، معاشی اسباب کے باعث ہی لوگ لڑائی کے مقام سے دور بھاگ رہے ہیں۔
کوئلے کی کئی کانیں یا تو بند ہیں یا پھر وہاں لوگوں کی بھرمار ہے، روزگار کے مواقع غائب ہوچکے ہیں۔ کوئلے کی کانوں میں ملنے والا روزگار یا تو اُن علاقوں میں ہے جہاں حالات خطرناک ہیں یا یہ وہاں غیر قانونی طور پر کان کنی کی جارہی ہے۔
الگزینڈر پیتروف رضاکار ہیں، جو روزانہ کی بنیاد پر شہریوں کو بحفاظت نکالنے کے لیے لڑائی کے علاقے میں داخل ہوگے ہیں۔ بقول اُن کے، ’’کچھ حضرات کے لیے علیحدگی پسند گروہوں میں شامل ہونے سے بہتر ہے کہ وہ متبادل پر عمل درآمد کریں‘‘۔
یہ تنازعہ جاری ہے، اور اِسی طرح لوگوں کی زندگیاں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔