یوکرین پر روس کے حملےکے ابتدائی چند ماہ کے دوران یوکرین سے لاکھوں افراد جان بچا کر پولینڈ فرار ہو گئے تھے ۔ جنگ کا ایک سال مکمل ہونے کے بعد اب سرحد پر صورت حال بہتر ہو گئی ہے۔ یوکرین کے شہری اب با آسانی سرحدکے دونوں طرف آتے جاتے ہیں ۔
اولگا شسٹ یوکرینی پناہ گزیں ہیں اور پولینڈ میں کام کرتی ہیں لیکن اپنے والدین کی دیکھ بھال کے لیے وطن آتی جاتی ہیں ۔ ان کے والدین بوڑھے ہیں اور جنگ سے بھاگ کر کہیں جا نہیں سکتے ۔12 ماہ سے جاری جنگ کے نفسیاتی اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں ۔
اولگا شسٹ موجودہ صورت حال کے بارے میں بات کرتی ہیں اور ان کا سوال یہ ہے کہ ’’آپ اس طرح کسی کی جان کیسے لے سکتے ہیں ۔یہ اکیسویں صدی ہے۔ ہر چیز میں پیش رفت ہو رہی ہے لیکن یہاں پر بہت مایوسی ہے۔ میری عمر کے لوگ اپنی زندگی اور مستقبل کی منصوبہ بندی کر چکے تھےلیکن اب سب کچھ تباہ ہو چکا ہے۔‘‘
پولینڈ کا سرحدی شہر پیشے میشول (Per-jzem-ishul) یوکرین سے آنے والے پناہ گزینوں کا ٹھکانہ ہے ۔
شارلٹ فارارایک رضاکار کی حیثیت سے امریکہ سے یہاں آئی ہیں ۔ انہوں نے پناہ گزینوں کی آمد میں نیا اضافہ دیکھا ہے ۔ اور وہ کہتی ہیں کہ ’’ لوگ یا تو یہ سوچ کر خوفزدہ ہیں کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے یا گزشتہ برس ہونے والے واقعات کی سنگینی انہیں نئے سرے سے پریشان کر رہی ہے کیونکہ انہیں سخت سردی میں بجلی ، ہیٹنگ اور صاف پانی کی کمی کا سامنا رہا ہے ۔‘‘
گزشتہ برس جنگ کے آغاز کے پہلے چند ہفتوں کے دوران روزانہ ہزاروں یوکرینی افراد پیشے میشول شہر پہنچنے کے لیے پر ہجوم ٹرینوں میں سرحد پار کرتے رہے ۔ کئی افراد کو بہت دن خوراک، پانی اور سر چھپانے کی کسی جگہ کے بغیر سڑکوں پر گزارنے پڑے۔
روس کےحملے کے ابتدائی دنوں میں ان پلیٹ فارمز پر جو افراتفری اور انتشار کی کیفیت تھی، وہ اب ختم ہو چکی ہے۔ لیکن جنگ شروع ہونے کے 12 مہینے بعد بھی انسانی جانوں کے نقصان اور جدائی کی داستانیں دل دکھانے کے لیے کافی ہیں۔ اب یہاں دو طرفہ آمدورفت جاری ہے ۔ یوکرین سے نکلنے اور واپس جانے والے کئی شہری پیشے میشول شہر سے گزرتے ہیں۔
ایسے ہی افراد میں اینا فیدرووا اور ان کے دو بچے بھی شامل ہیں جو یوکرین کی سرحد کے قریب واقع شہر زپورژیا لوٹ رہے ہیں ۔ ان کے شوہر آندرے پولینڈ میں ہی قیام پذیر ہیں جہاں وہ ایک ڈرائیور کے طور پر ملازمت کرتے ہیں۔
اس خاندان نے ایک ہفتہ ساتھ رہ کر گزارا ہے اور اب ایک ماہ تک دوبارہ ملاقات نہیں کر سکیں گے۔ اینا فیدرووا کہتی ہیں کہ ’’یہاں قریب ہی لڑائی جاری ہے لیکن میں اپنے گھر واپس جانا چاہتی ہوں۔ بچے کچھ عرصہ بہت پریشان اور خوفزدہ تھے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہر کوئی صورت حال سے مانوس ہو رہا ہے۔ اگرچہ چلتے پھرتے آپ دھماکوں کی آوازیں سن سکتے ہیں لیکن یہ معمول کی بات معلوم ہونے لگتی ہے ۔‘‘
تائیسیا اور ان کی بیٹی جولیانا کیف سے پولینڈ پہنچی ہیں۔ ایک سال سے یوکرین سے سفر کرتے یہ جنگ سے سمجھوتہ کرنا سیکھ رہی ہیں ۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’میں (پہلے سےزیادہ) مضبوط ہوں اور اب پہلے کی طرح ڈرا دینے والی صورت حال نہیں رہی۔ اب امید ہے کہ سب کچھ جلد ختم ہو گا۔(ہمارے لیے) بہت کچھ انجانا اور نا معلوم تھا۔ کچھ واضح نہیں تھا کہ (کب اور کیسے کیا ہوگا)۔ لگتا تھا کہ کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا ۔ لیکن ہم دن گزارتے رہے ،کام کرتے رہے اور نقل وحرکت جاری رکھی۔امید ہے کہ جلد سب کچھ اچھا ہو جائے گا۔‘‘
مشکلات کے باوجود امید زندہ ہے ۔ یہ خدشات کہ یوکرین روس کے سامنے شکست کھا جائے گا، ختم ہو گئے ہیں اور اب ان کی جگہ ایک مستحکم عزم نے لے لی ہے۔ لیکن بچھڑ نا اور الوداع کہنا کبھی بھی آسان نہیں ہوتا ۔
(ہنری رجویل۔ وی او اے)