پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا ہے کہ برطانیہ کی میزبانی میں گزشتہ ہفتے پاکستانی اور افغان اعلیٰ عہدیداروں کے درمیان ملاقات نے دوطرفہ کشیدگی میں کمی کے لیے اہم کردار ادا کیا۔
واضح رہے کہ پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر حنیف اتمر کے درمیان گزشتہ ہفتے لندن میں ملاقات ہوئی تھی۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار نے پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی اپنی برطانوی ہم منصب امبر رڈ کے ہمراہ منگل کو ایک مشترکہ نیوز کانفرنس میں کہا کہ خطے میں کشیدگی میں کمی کے لیے برطانیہ کی حالیہ سہولت کاری قابل ستائش ہے۔
چوہدری نثار نے کہا کہ برطانیہ میں ’’بات چیت کے نتیجے میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی اور شکوک و شبہات میں کمی سے متعلق آپ نے پہلے ہی کچھ مثبت پیش رفت دیکھی ہے۔ اس کی ایک مثال آج پاک افغان سرحد کا کھلنا ہے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ خطے کی سلامتی سے متعلق افغان حکام سے آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں مزید بات چیت ہو گی۔
اس موقع پر برطانوی وزیر داخلہ امبر رڈ نے کہا کہ اُن کا ملک اس طرح کے رابطوں اور سہولت کاری میں کردار ادا کرنے کے لیے رضا مند ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ پرامن و سازگار ماحول پیدا کرنے کے لیے جہاں بھی ممکن ہوا اس طرح کی ملاقات کا اہتمام کرنے کے لیے برطانیہ آمادہ ہے۔
اُدھر اسلام آباد میں یورپی یونین کے مشن سے جاری ایک بیان میں پاک افغان سرحدی راستے کھولنے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ یورپی یونین اور پاکستان میں موجود اس کے رکن ممالک وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے پاک افغان سرحدی راستے کھولنے کو خوش آئند قرار دیتے ہیں۔
یورپی یونین مشن کے بیان میں اس اُمید کا اظہار بھی کیا گیا کہ یہ اقدام پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو مضبوط بنانے میں کردار ادا کرے گا۔
واضح رہے پاکستانی حکومت کے فیصلے کے بعد منگل کی صبح سے طورخم اور چمن کے سرحدی راستوں کے ذریعے افغانستان کے لیے ہر قسم کی آمد و رفت بحال ہو گئی ہے۔
وزیراعظم نواز شریف نے پیر کو ایک بیان میں ’جذبہ خیر سگالی‘ کے طور پر پاک افغان سرحدی راستے فوری طور پر دوبارہ کھولنے کے احکامات جاری کیے، جس پر منگل کی صبح سے عمل درآمد شروع ہو گیا۔
سرحدی راستے کھلنے کے بعد ایک ماہ سے زائد عرصے سے پھنسے ٹرک اور کنٹینروں کو بھی سرحد کے آر پار آنے جانے کی اجازت مل گئی جب کہ عام لوگوں کی آمد و رفت بھی بحال ہے۔
فروری کے وسط میں ملک میں تواتر کے ساتھ ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعد پاکستان نے 16 فروری سے افغانستان سے اپنی سرحد ہر طرح کی آمد و رفت کے لیے بند کر دی تھی۔
پاکستان کا موقف رہا ہے کہ ملک میں ہونے والے حالیہ دہشت گرد حملوں کے تانے بانے افغان سر زمین پر موجود دہشت گردوں سے ملتے ہیں۔
افغانستان کی طرف سے بھی ایسے ہی الزامات لگائے جاتے رہیں کہ دہشت گردوں کی پناہ گاہیں اب بھی پاکستان میں موجود ہیں۔
سرحد کی بندش سے نا صرف عام شہری بلکہ تاجروں کی مشکلات میں بھی اضافہ ہو گیا کیوں کہ سینکڑوں ایسے ٹرک بھی سرحد بند ہونے کے سبب پھنس گئے جن پر پھل، سبزیاں یا دیگر ایسی اشیا لدی ہوئی تھیں۔
پاک افغان چیمبر آف کامرس کے صدر زبیر موتی والا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا تھا کہ ایک ماہ سے زائد وقت تک سرحد بند رہنے سے دونوں جانب تاجروں کو خاصا مالی نقصان ہوا ہے۔
تاجر اور مبصرین یہ کہتے رہے ہیں کہ سرحد کی بندش کسی مسئلے کا حل نہیں ہے اور دونوں ملکوں کو تجارت و سرحدی معاملات کو سیاسی اّمور سے الگ رکھنا چاہیئے۔