پلاسٹک کے کچرے سے پھیلنے والی آلودگی حالیہ برسوں میں دنیا کے لیے ایک نیا چیلنج بن گئی ہے۔ تمام بڑے شہر پلاسٹک یا اس کے کچرے سے پھیلنے والی آلودگی کے سنگین مسئلے سے دوچار ہیں۔
اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے کہیں پلاسٹک بیگز پر پابندی لگائی جا رہی ہے تو کہیں اس کا متبادل تلاش کیا جا رہا ہے۔
پاکستان کے متعدد شہروں میں بھی پلاسٹک کے شاپنگ بیگز پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور یہاں بھی یہ مسئلہ سنگین صورت اختیار کر گیا ہے۔
ساتھ ہی ساتھ پلاسٹک کا کچرا ٹھکانے لگانے اور اسے ری سائیکل یا دوبارہ استعمال کرنے کے بھی مناسب طریقے ڈھونڈے جا رہے ہیں۔
بھارت کے ایک سائنس دان راج گوپالن واسودیون چنائی کے ایک انجینئرنگ کالج میں پروفیسر ہیں۔ انہوں نے اس مسئلے سے نمٹنے کا ایک نیا طریقہ دریافت کیا ہے۔
وہ پلاسٹک گاربیج کو ری سائیکل کر کے اسے سڑکوں کی تعمیر میں استعمال کر رہے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی انہوں نے چند سال قبل ہی پیش کی تھی اور اس ٹیکنالوجی کی مدد سے اب تک ہزاروں کلومیٹر طویل سڑکوں کی تعمیر اور ان کی مرمت کی جا چکی ہے۔ اس سے پلاسٹک آلودگی کم کرنے میں بڑی حد تک مدد ملی ہے۔
راج گوپالن کے مطابق انہیں متعدد ممالک کی کمپنیوں کی جانب سے یہ ٹیکنالوجی خریدنے کی پیش کش کی گئی تھی لیکن وہ اپنے ملک کو بلامعاوضہ یہ ٹیکنالوجی دینا چاہتے تھے اس لیے ٹیکنالوجی کسی کو فروخت نہیں کی۔
ان کے بقول، بھارت میں اس ٹیکنالوجی سے بڑے پیمانے پر فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔
راج گوپالن کا کہنا ہے کہ بھارت میں سڑکوں کی طوالت 41 لاکھ کلومیٹر ہے۔ سڑکوں کی تعمیر کا بہت سا کام تاحال باقی ہے جس میں یہ ٹیکنالوجی استعمال ہو سکے گی۔
ان خدمات کے عوض انہیں بھارت کے معتبر ترین ایوارڈ 'پدم شری' سے نوازا جا چکا ہے۔ انہیں اپنے کارنامے کے سبب "پلاسٹک مین آف انڈیا" کہا جاتا ہے۔
بھارت کی حکومت راج گوپالن کی ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار کردہ ٹائلز سے شہروں اور دیہات میں بیت الخلا بھی تعمیر کر رہی ہے۔
ان ٹوائلٹس کو 'پلاسٹون' ٹیکنالوجی کے مدد سے تیار ہونے والی ٹائلز سے تعمیر کیا جا رہا ہے۔ یعنی ایسی ٹائلز جو پلاسٹک اور مٹی یا پتھر کی آمیزش سے تیار کیے گئے ہوں۔
بھارت میں ٹوائلٹ کی کمی بھی کسی بحران سے کم نہیں۔ موجودہ حکومت نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے 'سواچ بھارت' (صاف ستھرا بھارت) مہم شروع کی ہے۔