رسائی کے لنکس

ترکی:غلط معلومات پھیلانے کے قانون کے تحت صحافی کو سزا


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ترکیہ کی ایک عدالت نے ڈس انفارمیشن قانون کے تحت ایک صحافی کو 10 ماہ قید کی سزا سنا دی ہے۔ منگل کو سنائی جانے والی یہ سزا حال ہی میں متعارف کرائے گئے اس متنازع قانون کے تحت دی گئی ہے جسے بعض حلقے آزادی صحافت کے منافی قرار دیتے ہیں۔

صحافی سنان ایگول کو گزشتہ برس دسمبر میں ایک ٹویٹ کرنے کی پاداش میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ٹویٹ میں اُنہوں نے سیکیورٹی اہل کاروں پر 14 سالہ لڑکی سےزیادتی کا الزام عائد کیا تھا۔

عدالت کا یہ فیصلہ پارلیمنٹ کی جانب سے ,غلط معلومات پھیلانے کا قانون,منظور کرنے کے چار ماہ بعد آیا ہے جس کے بارے میں صدر رجب طیب ایردوان کی حکمراں اے کے پارٹی کہنا تھا کہ وہ عوام کو غلط یا گمراہ کن معلومات کے پھیلاؤ سے تحفظ فراہم کرے گی۔

اس قانون میں غلط یا گمراہ کن معلومات پھیلانے والے کو تین سال تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ ایردوان کی اے کے پارٹی اور اس کی قوم پرست اتحادی ایم ایچ پی نے کہا کہ اس کا مقصد غلط معلومات کا مقابلہ کرنا ہے۔

استنبول میں صحافیوں کی گرفتاریوں کے خلاف مظاہرے میں صحافی اور آزاد اظہار کے حامی شریک ہیں۔ فائل فوٹو
استنبول میں صحافیوں کی گرفتاریوں کے خلاف مظاہرے میں صحافی اور آزاد اظہار کے حامی شریک ہیں۔ فائل فوٹو

صحافی سنان ایگول نے پوسٹ کو واپس لے لیا اور خبر کی تصدیق کیے بغیر ٹویٹ کرنے پر حکام سے معذرت بھی کی مگر بعد میں انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ انہیں 10 دن بعد مقدمے سے پہلے ہی رہا کر دیا گیا۔

عدالتی دستاویز کے مطابق، منگل کو اس کیس کی پہلی سماعت میں، ایک مقامی عدالت نے ایگول کو 10 ماہ قید کی سزا سنائی اور فیصلہ دیا کہ اس نے گمراہ کن معلومات پھیلائی تھیں جو عوام میں خوف و ہراس کا باعث بن سکتی تھیں۔

سزا کے خلاف اپیل کے زیر التوا رہنے تک ایگول آزاد رہیں گے۔

ترکی میں صحافیوں کی گرفتاری کے خلاف مظاہرہ۔ فائل فوٹو
ترکی میں صحافیوں کی گرفتاری کے خلاف مظاہرہ۔ فائل فوٹو

ترکی کی اپوزیشن جماعتوں اور ناقدین کا کہنا ہے کہ حکام اس قانون کا غلط استعمال کرتے ہوئے اختلافی آوازوں کو دبا سکتے ہیں۔

دسمبر میں جاری ہونے والی کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی رپورٹ کے مطابق ترکی ،صحافیوں کو قید کرنے والے ملکوں میں سرفہرست ہے۔

سی پی جے نے کہا کہ ترکی میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے صحافیوں کی تعداد 2021 میں 18 سے بڑھ کر 2022 میں 40 ہو گئی، اور یہ تعداد ایران، چین اور میانمار کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔

خبر کا مواد رائٹرز سے لیا گیا

XS
SM
MD
LG