ترکی نے کہا ہے اس کے حمایت یافتہ باغیوں نے شام کی سرحد کے ساتھ تقریباً ایک سو کلومیٹر کی پٹی سے داعش کے شدت پسندوں کو نکال باہر کیا ہے۔
داعش کے خلاف ترکی کی براہ راست کارروائیوں کا آغاز گزشتہ ماہ کے اواخر میں اس وقت ہوا جب صدر رجب طیب اردوان نے سرحد پر دہشت گردوں کے خطرے کو کچلنے کے لیے جنگی طیارے، ٹینک اور توپے خانے کو وہاں بھیجا تھا۔
اتوار کو ترکی کے سرکاری خبر رساں ادارے اناطولیہ نے بتایا کہ شمال مشرقی سرحد پر اعزاز سے لے کر جرابلس تک کے علاقے کو شدت پسندوں سے صاف کر دیا گیا۔
ان دعووں کی تصدیق لندن میں قائم غیر سرکاری تنظیم سریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے بھی کی اور ایک بیان میں کہا کہ "ساجور دریا اور ال رائی دیہات کے درمیان واقع علاقوں کا کنٹرول کھو دینے کے بعد داعش کا بیرونی دنیا سے رابطہ ختم ہوگیا ہے۔"
مبصرین کا کہنا ہے کہ باغیوں کی پیش رفت سے شدت پسندوں کی وہ اہم گزرگاہیں مسدود ہو کر رہ گئی ہیں جنہیں وہ غیر ملکی جنگجو بھرتی کرنے اور اسلحہ و بارود کی نقل و حمل کے لیے استعمال کرتے تھے۔
اتوار کو ہی چین کے شہر ہوانگڈو میں جی 20 کانفرنس کے موقع پر ترکی کے صدر رجب طیب اردوان سے ملاقات میں امریکہ کے صدر براک اوباما کا کہنا تھا کہ شام کے ساتھ ترکی سرحد کو محفوظ بنانا بہت نازک معاملہ ہے۔
ترکی نے شام کی سرحد میں داخل ہو کر بھی کارروائیاں کی تھیں جس میں کرد باغیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔
اس پر امریکہ نے ترکی سے کہا تھا کہ وہ اپنی توجہ داعش کے خلاف لڑائی پر مرکوز رکھے۔