ترکی میں رائے عامہ کے ایک نئے جائزے کے مطابق ترکی کے عوام روس کو اپنے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔
رائے عامہ کے جائزے کے یہ نتائج ایک ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب گزشتہ چند ماہ کے دوران ترکی اور روس کی باہمی کشدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
استنبول کی قادر ہاس یونیورسٹی کی طرف سے ترک عوام کے رویوں کے متعلق کیے جانے والے ایک جائزے کے مطابق اب اسرائیل کی بجائے روس کا اس حوالے سے پہلا نمبر ہے۔
قادر ہاس یونیورسٹی سے منسلک بین الاقوامی امور کے ماہر سولی اوزل کا کہنا ہے کہ یہ نتائج کوئی حیران کن نہیں ہیں کیونکہ ان کے بقول ترکی کا سرکاری قوم پرست اور حکومت نواز میڈیا روس پر ترکی کے خلاف مبینہ سازشوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتا ہے۔ گزشتہ ماہ بلغاریہ سے ترک سفارت کار کو واپس بھیجنے کا الزم بھی روس پر عائد کیا جاتا ہے۔
اوزل نے کہا کہ ترکی کے 85 فیصد عوام ٹی وی سے خبریں حاصل کرتے ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ زیادہ تر ٹی وی چینل حکومت کے الزامات اور موقف کو ہی بار بار نشرکرتے رہتے ہیں اور اس صورت حال میں ترکی روس کو یقینی طور پر اپنے حریف کے طور پر پیش کرتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے روس کا ایک طیارہ بھی مار گرایا تھا۔
ترکی کی طرف سے گزشتہ سال نومبر میں شام کے ایک فضائی اڈے سے اڑنے والے روسی طیارے کو مار گرائے جانے کے بعد دونوں ملکوں کے لیے ایک بحرانی کیفت پیدا ہو گئی تھی۔ اس واقعہ سے پہلے نا صرف دونوں ملکوں کے مابین گزشتہ دو دہائیوں کے دوران تجارتی اور سیاحتی تعلقات کو فروغ حاصل ہوا بلکہ دونوں ملکوں کے شہریوں کے باہمی تعلقات میں بھی اضافہ ہوا۔
استنبول کی بلجی یونیورسٹی سے منسلک تاریخ دان ایان اختر کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تاریخی مخاصمت ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ تاریخی طور پر ترکی کے شکوک و شبہات کا تعلق صرف روس تک محدود نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماسکو کے ساتھ موجودہ بحران کا تعلق ملکی عدم تحفظ کے متعلق وسیع تر رجحان کا اظہار ہے جو (ترکی کے) معاشرے اور ریاست کے اندر موجود ہیں۔
مبصرین کا ماننا ہے کہ ترکی کے ہمسایہ ملک آرمینیا میں ماسکو کی طرف سے اپنے لڑاکا جہازوں کو متعین کرنے سے ترکی کے خدشات میں اضافے ہوگا جس کے بارے میں روس اچھی طرح آگاہ ہے۔