واشنگٹن ڈی سی میں جمعے کے روز سالانہ ’مارچ فور لائف‘ ریلی نکالی گئی، جس میں ہزروں افراد نے شرکت کی، جس کی اہمیت اِس سال اس لیے بڑھ گئی ہے، چونکہ ڈونالڈ ٹرمپ انتظامیہ اور ری پبلیکن قیادت والی کانگریس کے دور میں اُن کی تبدیلی لانے کی توقعات میں نئی جان پڑ گئی ہے۔
ایوانِ نمائندگان کی عمارت کے سامنے منعقدہ احتجاجی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، نائب صدر مائیک پینس نے، جو ایک طویل عرصے سے اسقاطِ حمل کے مخالف رہے ہیں، کہا کہ ’’زندگی کی جیت‘‘ ہو رہی ہے۔
پینس کے خطاب سے پہلے، صدر ٹرمپ نے مارچ کی حمایت کرتے ہوئے، ٹوئٹر پر پیغام دیا، ’’آپ کو ہماری مکمل حمایت حاصل ہے‘‘۔
نئی انتظامیہ کے دور میں چند ہی روز قبل پانچ لاکھ خواتین کی جانب سے تولیدی حقوق کی حمایت میں مظاہرہ کیا گیا تھا، اِس تینتالیسویں سالانہ مارچ میں مظاہرین اُنہی سڑکوں سے گزرے۔ اُنھوں نے سنہ 1973کے ’رو اینڈ ویڈ‘ فیصلے کے خلاف نعرے بازی کی، جس ماضی کے امریکی عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے میں اسقاطِ حمل کے عمل کو جائز قرار دیا گیا تھا۔
کچھ ہی دِنوں کے اندر اندر اِن مظاہروں کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ملک میں متنازع ترین معاملات پر لوگ آواز بلند کر رہے ہیں، یہ ثابت کرتے ہوئے کہ حامی اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں، جب کہ کانگریس اور انتظامی اقدامات اسقاطِ حمل کے حامی سرگرم کارکنان کی امداد کے لیے نئی امیدوں کا باعث ہیں۔
اوول آفس میں آمد کے فوری بعد، صدر ٹرمپ کی جانب سے جو پہلے حکم نامے جاری کیے گئے، اُن میں خودساختہ ’میکسیکو سٹی پالیسی‘ بھی شامل تھا، جس کے تحت اُن غیر ملکی تنظیموں کو رقوم فراہم نہ کرنے کا اعلان کیا گیا تھا جو اسقاطِ حمل پر عمل پیرا ہیں۔
مخالفین اِس پالیسی کو عالمی سطح پر ’’منہ بند کرنے‘‘ کا مؤقف قرار دیتے ہیں، لیکن یہ پالیسی بدلتی رہی ہے، اِس بنا پر کہ وائٹ ہاؤس کس کے کنٹرول میں ہے۔ سنہ 1984 سے تمام ری پبلیکن صدور نے اپنے مؤقف پر عمل درآمد کرایا ہے؛ جب کہ ڈیموکریٹ صدور نے اسے خارج کیا ہے۔ لیکن، مخالفین استفسار کرتے ہیں کہ ماضی کے ری پبلیکن صدور کے مقابلے میں، ٹرمپ کا انتظامی حکم نامہ ایک قدم آگے کا معاملہ ہے۔
جمیلہ ٹیلر ’سینٹر فور امریکن پروگریس‘ میں ایک سینئر فیلو ہیں، جو ادارہ خواتین کی صحت اور تولیدی حقوق کے موضوع کی وکالت کرتا ہے۔ اُنھوں نے، نئے اقدام کے بارے میں ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’آج یہ صحت سے متعلق تمام عالمی فنڈنگ پر لاگو ہوتا ہے‘‘۔
اسقاطِ حمل کے بارے میں ماضی میں ٹرمپ کا ریکارڈ غیر پائیدار رہا ہے، جو 1999ء میں اپنے آپ کو ’پرو چوائس‘ قرار دیتے تھے؛ جب کہ 2016ء میں صدارتی انتخابی مہم کے دوران وہ عدالتی تنازع میں کود پڑے، جب اُنھوں نے کہا کہ اسقاط حمل کی خواہاں خواتین کو ’’کسی قسم کی سزا‘‘ ملنی چاہیئے۔
اس معاملے پر پیر کے روز، وائٹ ہاؤس نے صدر کے عزم کا اعادہ کیا، جب پریس سکریٹری شان اسپائسر نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’’یہ پوشیدہ معاملہ نہیں رہا کہ زندگی کے حق کی لڑائی کے حوالے سے، یہ انتظامیہ اور یہ صدر کیا کچھ کرنے ادارہ رکھتے ہیں‘‘۔