امریکہ میں گزشتہ ماہ ہونے والے صدارتی انتخابات کے نتائج کی توثیق کے لیے الیکٹورل کالج کے اراکین پیر کو ووٹ ڈال رہے ہیں تاہم صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ الیکشن میں وہی کامیاب ہوئے ہیں۔
اتوار کو 'فوکس نیوز' کو دیے گئے ایک انٹرویو میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ ابھی ختم نہیں ہوا۔
صدر نے کہا کہ ہم آگے بڑھتے رہیں گے کیوں کہ مقامی سطح پر دھاندلی کے خلاف تاحال کئی کیسز زیرِ التوا ہیں۔
اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ "کئی ریاستوں میں الیکشن نتائج چوری کیے گئے۔ ہم پینسلوینیا میں جیتے، مشی گن میں جیتے جب کہ جارجیا میں بھاری اکثریت سے جیتے۔"
خیال رہے کہ امریکی سپریم کورٹ اور ریاستی عدالتیں صدر کی انتخابی مہم کی جانب سے دھاندلی کے خلاف دائر لگ بھگ 50 درخواستیں مسترد کر چکی ہے تاہم صدر ٹرمپ اور اُن کے حامیوں کا اصرار ہے کہ 3 نومبر کے الیکشن میں دھوکہ دہی اور ووٹر فراڈ کے ذریعے نتائج تبدیل کیے گئے۔
اتوار کو ایک ٹوئٹ میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ ریاستیں اور سیاست دان کیسے ان نتائج کی تصدیق کر سکتے ہیں جن میں بدعنوانی اور بے ضابطگیوں کے دستاویزی ثبوت ہیں؟
صدر ٹرمپ نے ایک اور ٹوئٹ میں جلی حروف میں لکھا کہ "یہ امریکہ کی تاریخ کے سب سے کرپٹ الیکشن تھے۔"
ٹوئٹر نے ماضی کی طرح صدر ٹرمپ کی ان ٹوئٹس پر بھی انتباہی نوٹس لگا دیے ہیں۔
خیال رہے کہ امریکہ کی سپریم کورٹ نے ریاست ٹیکساس میں بھی 3 نومبر کے انتخابی نتائج کو کالعدم قرار دینے کے مقدمے کو خارج کر دیا ہے جس سے ٹرمپ اور اُن کے حامیوں کو کافی اُمیدیں وابستہ تھیں۔ اس مقدمے میں چار 'سوئنگ' ریاستوں پینسلوینیا، مشی گن، وسکانسن اور جارجیا کے نتائج کو چیلنج کیا گیا تھا۔
صدر ٹرمپ کے حامیوں نے ہفتے کو صدارتی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے حق میں واشنگٹن میں 'میگا ملین مارچ' کے نام سے احتجاجی ریلی بھی نکالی تھی۔
الیکٹورل کالج کا اجلاس
صدر ٹرمپ کی جانب سے دھاندلی کے الزامات کے باوجود امریکہ میں صدارتی انتخابات کی توثیق کے لیے الیکٹورل کالج کے اراکین پیر کو جمع ہو رہے ہیں۔
الیکٹورل کالج کے اراکین ہر ریاست کے دارالحکومت میں جمع ہو کر 3 نومبر کو ہونے والے صدارتی الیکشن کی توثیق کریں گے۔
خیال رہے کہ امریکہ میں صدر اور نائب صدر براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب نہیں ہوتے بلکہ وہ الیکٹورل کالج کے عمل کے ذریعے الیکٹرز منتخب کرتے ہیں۔
الیکٹورل کالج کوئی ادارہ نہیں بلکہ یر ریاست میں پارٹی کے نامزد نمائیندے ہیں جو صدر اور نائب صدر کا انتخاب کرتا ہے۔ صدارتی الیکشن میں کامیابی کے لیے اُمیدوار کے لیے 270 الیکٹورل ووٹ حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔
امریکی عوام صدارتی الیکشن میں درحقیقت ان 538 الیکٹرز کو ووٹ ڈالتے ہیں جو 14 دسمبر کو باضابطہ طور پر صدر اور نائب صدر کے انتخاب کی توثیق کرتے ہیں۔
غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق نو منتخب صدر جو بائیڈن 306 ووٹ لے چکے ہیں جب کہ صدر ٹرمپ کو 232 الیکٹورل ووٹ ملے ہیں۔
نو منتخب صدر بائیڈن کی ٹرانزیشن ٹیم کے مطابق الیکٹورل کالج سے توثیق کے بعد بائیڈن قوم سے خطاب کریں گے جسے براہ راست نشر کیا جائے گا۔
بائیڈن کی ٹیم کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق اپنے خطاب میں نو منتخب صدر امریکی جمہوریت کی مضبوطی کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کریں گے۔
الیکٹورل ووٹ کی دلچسب تاریخ
انتخابی ضابطے کے تحت دسمبر کے دوسرے بدھ کے بعد والے پہلے پیر، جو اس بار 14 دسمبرکو ہے ، الیکٹرز ریاستی دارالحکومتوں میں سکریٹری آف اسٹیٹ کے زیرنگرانی ووٹ ڈالیں گے۔ ووٹنگ خفیہ رائے کے تحٹ ہو گی۔ جس کے بعد سکرٹری آف اسٹیٹ ووٹوں کی گنتی کرکے نتیجہ واشنگٹن میں امریکی سینیٹ کو بھیج دینگے۔
امریکی دارالحکومت میں ان نتائج کی وصولی کی آخری تاریخ 23 دسمبر ہے۔چند عشرے پہلے تک ریاستوں سے الیکٹرل کالج کے منقش بیلٹ بکس خصوصی بگھیوں کے جلوس میں وفاقی دارالحکومت پہنچائے جاتے تھے۔ اب یہ سلسلہ ختم ہو گیا ہے اور نتائج ڈاک کے ذریعے لفافے میں بھیج دئے جاتے ہیں۔
امریکہ کی پچاس میں سے 33 ریاستوں میں الیکٹڑز یا پارٹی نمائندے اسی امیدوار کو ووٹ دینے کے پابند ہیں جس نے انھیں نامزد کیا ہے۔ لیکن دوسری ریاستوں میں الیکٹرز اپنی مرضی سے ووٹ دے سکتے ہیں۔
البتہ امریکہ کی جمہوری روایت یہ رہی ہے کہ گزشتہ 244 سال کے دوران صرف دو بار ایسے واقعات پیش آئے جب الیکڑرز نے 'مختلف فیصلہ دیا ۔ سن 1872 میں عام انتخابات کے بعد الیکٹرل ووٹنگ سے پہلے لبرل ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ہوریس گریلی انتقال کرگئے چنانچہ انکے الیکٹرز نے دوسرے امیدواروں کو ووٹ دئے۔