افغانستان میں حکومت اور طالبان کے مابین براہ راست بات چیت کے عمل کو بحال کرنے کی حکمت عملی وضع کرنے کے لیے قائم چار فریقی گروپ کا تیسرا اجلاس ہفتہ کو اسلام آباد میں منعقد ہو رہا ہے۔
گزشتہ دسمبر میں قائم کیے گئے اس گروپ میں پاکستان، افغانستان، چین اور امریکہ شامل ہیں۔ اس کا پہلا اجلاس گزشتہ ماہ اسلام آباد اور دوسرا کابل میں ہوچکا ہے۔
دوسرے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی بحالی پر تبادلہ خیال کیا گیا اور اس ضمن میں کی جانے والی کوششوں میں کسی قدر پیش رفت ہوئی ہے۔
اجلاس میں مذکرات کی بحالی کے لائحہ عمل کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کے اقدام پر بھی بات چیت کی گئی تھی۔
پاکستان نے گزشتہ سال جولائی میں افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے مابین پہلی براہ راست ملاقات کی میزبانی کی تھی جس میں چین اور امریکہ کے نمائندے بھی شریک ہوئے۔
اس ملاقات کا مقصد جنگ سے تباہ حال ملک میں قیام امن کے لیے فریقین کو مذاکرات کی میز پر لا کر مسئلے کا پرامن حل تلاش کرنے کی کوشش تھا۔ لیکن بات چیت کے پہلے دور کے دو ہفتوں بعد یہ خبر منظرعام پر آئی کہ طالبان کے امیر ملا عمر دو سال قبل انتقال کر چکے تھے لیکن بوجوہ ان کے انتقال کی خبر کو پوشیدہ رکھا گیا۔
اس خبر کے سامنے آتے ہی نہ صرف بات چیت کا عمل معطل ہو گیا بلکہ طالبان کے آپسی اختلافات بھی شدت اختیار کر گئے جب کہ اس کے جنگجوؤں نے افغانستان میں اپنی کارروائیاں بھی تیز کر دیں۔
پاکستان کا موقف رہا ہے کہ وہ افغانستان میں قیام امن کے لیے افغانوں کی زیر قیادت اور ان کی شمولیت سے مصالحتی عمل کی مکمل حمایت اور تعاون کے عزم پر قائم ہے کیونکہ پرامن اور مستحکم افغانستان خود پاکستان کے مفاد میں ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے چیئرمین اویس لغاری مصالحتی عمل کی بحالی کے سلسلے میں چار فریقی اجلاس کی کاوشوں سے خاصے پرامید دکھائی دیتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا، "پاکستان ہر صورت میں اپنی پوری کوشش کرے گا کہ اس کوشش کو کامیاب ہونا چاہیے اور پاکستان کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرے گا۔ اب افغانستان میں تمام فریقین پر ان کی حکومت اور جو بھی دیگر فریقین ہیں ان پر بھی منحصر ہے۔۔۔مجھے یقین ہے کہ چین اور امریکہ کے بھی یہی خیالات ہیں جو پاکستان کے ہیں۔"
مبصرین بھی یہ کہتے آئے ہیں کہ افغان مصالحتی عمل میں پاکستان کا کردار بلاشبہ بہت اہم ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے مابین باہمی اعتماد سازی بھی بہت ضروری ہے۔
دنیا کی دو بڑی اقتصادی قوتوں امریکہ اور چین کا کہنا ہے کہ افغانستان کا امن خطے اور عالمی امن کے لیے بہت ضروری ہے اور اس سلسلے میں کی جانے والی کوششوں کی وہ مکمل حمایت کریں گے۔