افغان طالبان نے لیتھیم اسمگل کرنے کے الزام میں دو چینی شہریوں سمیت پانچ افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔
یہ گرفتاریاں مشرقی افغان سرحدی شہر جلال آباد میں عمل میں آئی ہیں جب کہ گرفتار افراد پر 1000 میٹرک ٹن لیتھیم دھات کی چٹانیں افغانستان سے باہر اسمگل کرنے کی کوشش کا الزام ہے۔
طالبان کے انٹیلی جنس حکام نے اتوار کو افغان ٹیلی ویژن چینلز کو بتایا کہ چینی شہری اور ان کے افغان ساتھی قیمتی پتھروں کو غیر قانونی طور پر پاکستان کے راستے چین منتقل کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔
افغان وزارتِ معدنیات اور پیٹرولیم کے ایک سینئر اہلکار محمد رسول عقب کے مطابق ان چٹانوں میں 30 فی صد تک لیتھیم موجود ہے۔
حکام کے مطابق "ان چٹانوں کو خفیہ طور پر نورستان اور کنڑ صوبوں سے نکالا گیا تھا جو پاکستان کی سرحد کے ساتھ واقع ہیں۔"
خیال رہے کہ طالبان نے اگست 2021 میں تمام امریکی اور نیٹو فوجیوں کے ملک سے انخلا کے بعد افغانستان میں دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد سے لیتھیم نکالنے اور فروخت کرنے پر پابندی لگا رکھی ہے۔
اندازوں کے مطابق افغانستان میں ایک ٹریلین ڈالر مالیت کی نایاب زمینی معدنیات کے ذخائر موجود ہیں جن میں لیتھیم کے بڑے ذخائر بھی شامل ہیں۔ کئی دہائیوں سے جاری جنگوں اور اندرونی تنازعات کے باعث افغان کان کنی کے شعبے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوپائی ہے۔
لیتھیم دھات ہلکی ہوتی ہے اور ر ی چارج ایبل بیٹریوں کے لیے یہ ایک کلیدی جز ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے جدید ٹیکنالوجیز میں اسے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان خصوصیات کی بدولت اس دھات کی عالمی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔
جنگجوگروپ کے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد امریکہ اور مغربی ممالک نے بڑے پیمانے پر افغانستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کی تھیں۔
حالیہ مہینوں میں طالبان نے پاکستان کو کوئلے کی برآمدات میں اضافہ کیا ہے، جس سے انہیں افغان بجٹ کی ضروریات کو پورا کرنے اور سرکاری شعبے کے ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے انتہائی ضروری محصولات حاصل ہوتی ہیں۔
افغانستان میں خواتین کے حقوق کی پامالیوں اور طرزِ حکمرانی سے متعلق بین الاقوامی سطح پر طالبان حکومت پر تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے اور اب تک کسی بھی ملک نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا۔