پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقے تخت بائی کے کھنڈرات تاریخی اعتبار سے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ وقت کے سفر نے اگرچہ ان سے ماضی کی عظمت اور شان و شوکت تو چھین لی ہے، لیکن انہیں دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ لگ بھگ دو ہزار سال قبل اس خطے میں آباد بودھ قوم فن تعمیر کی باریکیوں سے کس قدر آشنا تھی اور انہوں نے کیسی کیسی عالیشان تعمیرات کیں تھیں۔
تخت بائی کے دو ہزار سال پرانے کھنڈرات

1
ایک اندازے کے مطابق یہ عمارتیں ایک صدی قبلِ مسیح میں تعمیر کی گئی تھیں جب اس خطے میں بودھ مت کا عروج تھا۔ قیاس ہے کہ یہ تعمیرات بودھ حکمراں کنشک کے حکم پر ہوئیں۔

2
گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے عہد کی عظیم عمارتیں شکست و ریخت کا شکار ہوتی رہیں۔ جن میں سے کچھ ڈھ چکی ہیں اور کچھ کے کھنڈرات ابھی باقی ہیں۔ 1980 میں یونیسکو نے انہیں عالمی ورثہ قرار دیا تھا۔

3
آج یہ کھنڈرات ہر آنے والے کو ماضی کی عظمتوں کی یاد دلاتے ہیں۔ آثار قدیمہ سے دلچسپی رکھنے والوں کو کہنا ہے کہ مناسب دیکھ بھال سے دو ہزار سال پرانے ان کھنڈرات کو مزید خستہ حالی سے محفوظ کیا جا سکتا ہے۔

4
1833 میں ان کھنڈرات کی کھدائی کے دوران کچھ مزدوروں کو یہاں سے قدیم سکے اور مجسمے ملے، جس کے بعد برصغیر کی انگریز حکومت نے اس علاقے کو ایک تاریخی ورثہ قرار دے کر 1907 میں باقاعدہ کھدائی کا کام شروع کر دیا۔