ایک نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شام میں پانچ سال قبل خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد سے اب تک 470,000 افراد ہلاک ہو گئے ہیں اور جانی نقصان کا نیا تخمینہ اقوام متحدہ کے ماضی کے تخمینوں سے لگ بھگ دگنا ہے۔
خود مختار غیر سرکاری تنظیم سیریئین سینٹر فار پالیسی ریسرچ کے مطابق چار لاکھ شامی جنگ میں ہونے والے تشدد سے ہلاک ہوئے جبکہ 70,000 افراد نامناسب صحت، رہائش، حفظان صحت، خوراک اور صاف پانی کی سہولتیں میسر نہ ہونے کے باعث تھیں۔
دمشق میں قائم مرکز نے کہا کہ مارچ 2011 میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک 11.5 فیصد شامی آبادی ہلاک یا زخمی ہو گئی ہے۔ یہ اعداد و شمار اس سے پہلے برطانیہ کے اخبار ’گارڈین‘ میں دیے گئے تھے۔
اقوام متحدہ نے اس سے قبل شامی شہریوں کی اموات کی تعداد 250,000 جبکہ بے گھر ہونے والوں کی تعداد ایک کروڑ دو لاکھ بتائی تھی۔
مگر اخبار کے مطابق اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے 2014 کے وسط کے بعد سے مرنے والوں کی تعداد کی گنتی قابل اعتماد معلومات کے ذرائع تک رسائی نہ ہونے کے باعث روک دی تھی۔
سیریئین سینٹر فار پالیسی ریسرچ نے کہا ہے کہ خانہ جنگی میں اندازاً 19 لاکھ افراد زخمی ہوئے ہیں اور ایک کروڑ 38 لاکھ افراد کا روزگار چھن گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ملک کی 45 فیصد آبادی کو جنگ شروع ہونے کے بعد اپنے گھروں کو چھوڑنا پڑا ہے جن میں 40 لاکھ سے زائد افراد ملک سے فرار ہو گئے ہیں جبکہ 64 لاکھ افراد ملک کے اندر بے گھر ہوئے ہیں۔
امریکہ کی زیر قیادت اتحاد شام میں داعش کے شدت پسندوں کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور چاہتا ہے کہ صدر بشار الاسد اقتدار سے الگ ہو جائیں مگر روس اور ایران صدر اسد کے مخالفین پر حملے کر کے ان کی حمایت کر رہے ہیں۔
ان مخالفین میں وہ باغی بھی شامل ہیں جن کی معاونت امریکی اتحاد کر رہا ہے۔
گزشتہ سال اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے کہا تھا کہ شام ’’دنیا میں سب سے بڑے انسانی بحران کا شکار ہے جس سے علاقے کی امن و سلامتی خطرے میں ہے۔‘‘